Hi everyone.my name is Nida Bloch and this is my blog for everything I like I hope you also find it interesting thanks for visiting my blog. Keep enjoying. Sayo nara
Wednesday, 29 November 2017
december
Qurbat bhi nahin dil se utar bhi nahin jata..
Urdu poetry
Tujhe IshQ ho Khuda Karey..
Koi Tujh ko ' Us se Juda Karey..TereY Hont Hansna bhooL Jaayen..Teri Aankh Pur Num raha Karay..Terey samney tera ghar Jalay..Tera bas chalay' na bacha sakey..Teray diL se Nikley yehi Dua..Youn na Ghar kisi ka JaLa Karay..Tujhe Hijar ki wo jhari Lagey..Tu her PaL MiLan ki Dua Karey..Tu Usey dekh k Ro Parey..Wo Nazar Jhuka k ChaLa Karey..Tujhe Neend na aaye Raat bhar..Tu ghari ghari Gina Karey..Hans Hans k sub se MiLa Karey..Chup Chup k tu Roya Karey..Zindagi se Bezaar rahey..Mar Mar k Tu Jiya Karey..Phir tujhe Ishq pe hO YAQEEN...Usey Tasbeehon mein Parha Karey..Phir mein kahun "Ishq to Dhong Hai....!!"Tu "Nahe Nahe" Kia KaraY....!!
Galat Fehmi Main Mat Rehna
Woh Badle Ga Chalen Apni Galat Fehmi Main Mat Rehna,
Tasalli Bhi Usse Dena Yahe Mumkin Hai Ke Main Lot Aaon,
Magar Yhe Bhi Usse Kehna Galat Fehmi Main Mat Rehna,
Tumhara Tha Tumhara Hon Tumhara Hi Rahonga Main,
Mere Bare Main Is Darja Galat Fehmi Main Mat Rehna,
Mohabbat Ka Bharam Toota Hai Ab Chup Chup Ke Rote Ho
Tumhen Maine Kaha Tha Na Galat Fehmi Main Mat Rehna
Aurat
Monday, 27 November 2017
ڈاکٹر روتھ فاؤ
یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔
پیشے کے لحاظ سے یہ ڈاکٹر تھیں۔
سن 1958ء کی بات ھے اس خاتون نے 30 سال کی عمر میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض
ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘
کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘
یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔
پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘
یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘
یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘
ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔
_______
یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘
زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘یہ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا
اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘
انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا‘
کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔
چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ان کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘
انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا‘یہ عظیم خاتون اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی
جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔اس کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی‘
یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا‘
اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی‘
ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔
یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ان ہوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا‘
ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘
یہ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی‘
جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔
وہ پاکستان میںجزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔
ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا‘
پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘
یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔
حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی‘
#
اسے ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔
جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ ’’ڈیزرو‘‘ کرتی ہے‘
جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا
بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘
جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔
ان کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ ھے۔۔
ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے ۔
ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے
اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔
یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔
Friday, 24 November 2017
Qayamat
Itna Ruk Ruk Ke Chalogi To Qayamat Hogi...!!
هنسنامنع هے
,
ان دونوں کے درمیان اس طرح سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔
استانی : - "آپ کیا بات کرنا چاہتے ہیں؟"
طالب علم:- " مجھے لگتا ہےکہ میں کافی ذہین ہوں اور مجھے اس سے بڑی کلاس میں ہونا چاہئے۔ کیا آپ مجھے اس سے بڑی کلاس میں بھیج سکتی ہیں؟"
استانی نے اس کی اس درخواست کو اسکول کے ڈائریکٹر تک پہنچا دیا اور ڈائریکٹر نے طالب علم کی صلاحیت کا اندازہ کرنے کے لئے ایک انٹرویو لیا ۔
ڈائریکٹر : - "3 ضرب 4 کتنا ہوتا ہے؟"
طالب علم:- " 12 ".
ڈائریکٹر : - " ٹھیک ہے، 6 ضرب 6 کتنا ہوتا ہے؟"
طالب علم:- "36".
ڈائریکٹر : - "جاپان کی راجدھانی کہاں ہے۔ ؟"
طالب علم: - "ٹوکیو"
ڈائریکٹر نے تقریبا آدھا گھنٹہ سوال جواب کیا اور طالب علم نے ایک بار بھی جواب دینے میں کوئی غلطی نہ کی۔
پھر انہوں نے استانی سے کہا کہ اگر آپ کچھ پوچھنا چاہتی ہیں تو پوچھ سکتی ہیں۔
استانی :- " ٹھیک ہے، تو بتائیے کہ وہ کونسی چیز ہے جو گائے کہ پاس چار ہیں اور میرے پاس دو ہیں؟"
(ڈائریکٹر نے بڑے تعجب سے استانی کو دیکھا)۔
طالب علم:- " ٹانگیں استاد محترم!"
استانی :- " بالکل صحیح، اب یہ بتائیے کہ وہ کونسی چیز ہے جو تمہاری پتلون میں ہے اور میری پتلون میں نہیں ہے؟ "
(ڈائریکٹ بڑا حیران ہو اور بڑا شرمندہ ہوا)۔
طالب علم : - "جیب"
استانی : - "عورتوں کے گھنگھریالے بال کہاں ہوتے ہیں؟ "
(ڈائریکٹر حیران و پریشان ہو گیا)۔
طالب علم: -"افریقا میں"
استانی :- " وہ نرم سی چیز کیا ہے جو عورتوں کے ہاتھ میں سخت ہو جاتی ہے؟ "
(ڈائریکٹر کے دل کی دھڑکنیں بند ہو گئیں)۔
طالب علم:- " نیل پالش".
استانی : - "عورتوں اور مردوں کی ٹانگوں کے درمیان میں کیا ہوتا ہے؟" (ڈائریکٹر کی تو آوازبند ہو گئی)۔
طالب علم: - "گھٹنے "
استانی : - " بہت خوب! اب یہ بتائیے کہ وہ کون سی چیز ہے جو شادی شدہ عورت کے پاس کنواری عورت سے بڑی ہوتی ہے؟"
(ڈائریکٹر کا تو بدن ہی شل ہو گیا)۔
طالب علم:- " چار پائی".
استانی :- "میرے جسم میں وہ کون سی جگہ ہے جہان پر رطوبت سب سے زیادہ ہوتی ہے؟"
(ڈائریکٹر نے آسمان کی طرف دیکھا اور اللہ سے مددمانگنے لگا)۔
طالب علم : -
"زبان ۔ اے استاد محترمہ!"
یہ سب سننے کے بعد ڈائریکٹرنے کہا: -
"میں اپنی سوچ پر لعنت بھیجتا ہوں۔ تم یونیورسیٹی جاؤ اور میں پرائمری اسکول جاتا ہوں ۔۔
Kangan
¤KANGAN¤
<Wasi shah>
Kash men tere hasin hath ka kangan hota
... To bare piar bare chao se bare maan k sath
Apni nazak se kalai pe charhati muj ko
Our betabi se furqat k khzan lamhon men
To kisi soch men dobi jo gamati mujh ko
Men tere hath ki khushboo se mehak sa jata
Jab kabi mood men aa kar chooma karti
Raat ko jab b to nendon k safar par jati
Marmarin hath ka ik
takia banati
men tere kanon se lag kar kai baten karta
Teri zulfon ko tere gaal ko chooma karta
kuch nahin to yahi benam sa bandan hota
Kash men tere hasin hath ka kangan hota...
Thursday, 23 November 2017
POetry
کوئی گہرا ہے غم شاید
یونہی چلتے ہوئے تنہا
تم اکثر گنگناتے ہو
ملیں نظروں سے جب نظریں
کسی گم سم سی حالت میں
فقط اتنا ہی کہتے ہو
بہت بوجھل طبیعت ہے
کسی کو یاد کرتے ہو
Mehman
Intazar
Afsana
Shaheed
ہیں نہیں مریخ سے نہیں آیا تھا
Gazal
Funny Phone
Kahani Khatam
Tehzeeb ki lashh
Asalam o ealekum , Kuch din pehly hamari gerat kachray k dheer par pari mili thi or ab tehzeeb ki lashh ek car sy baramad hoi hay , Se...
-
ﻧﺼﺮﺕ ﻓﺘﺢ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺘﻨﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺗﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﺳﮯ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺻﻨﻢ ﻭﮦ ﺧﺪﺍ ﮨﻮ ﮔ...
-
اپنے دُکھ مجھے دے دو (راجندر سنگھ بیدی) اندو نے پہلی بار ایک نظر اوپر دیکھتے ہوئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور صرف اتنا سا کہا۔ "جی...
-
Hamesha Hi Nahi Rehte Kabhi Chehre Naqabon Main Sabhi Kirdaar Khulte Hain Kahani Khatm Hone Par... hi friends Facebook walon ny muj...