Wednesday, 29 November 2017

december



Akhri chand din december ke,
Har baras hi giraan guzarte hain,
Khawhishon ke nigaar-khanay se,
Kese kese gumaan guzarte hain,
Raftagaan ke bikharte saayon ki,
Aik mehfil si dil main sajti hai,
Phone ki diary ke safhon se,
Kitne number pukaarte hain mujhe,
Jin se marboot be’nawaa ghanti,
Ab faqat mere dil main bajti hai,
Kis qadar pyare pyare naamon pr,
Reengti bad’numaa lakeeren si,
Meri aankhon main phail jati hain,
Dooriyan daayere banati hain,
Phir december ke aakhri din hain,
Har barass ki tarah se ab ke bhi,
Diary ik sawaal karti hai,
Kya khabar is baras ke akhir tak,
Mere in be’chiraagh safhon se,
Kitne hi naam katt gaye hon ge,
Kitne number bikhar ke raston main,
Gard-e-maazi se att gaye hon ge,
Khaak ki dheriyon ke daman main,
Kitne tufaan simatt gaye hon ge,
Har december main sochta hon main,
Aik din is tarah bhi hona hai,
Rang ko roshni main khona hai,
Apne apne gharon main rakhi hui,
Diary dost dekhte hon ge,
Un ki ankhon ke khaak-daanon main,
Aik sehraa sa phailta ho ga,
Aur kuch benishaan safhon se,
Naam mera bhi katt geya hoga..

Qurbat bhi nahin dil se utar bhi nahin jata..




Qurbat bhi nahin dil se utar bhi nahin jata.

Woh shakhss koi faisla kar bhi nahin jata.


Ankhen hain ke khaali nahin rehti hain lahuu se.

Aur zakham-e-judai hai ke bhar bhi nahin jata.


Woh rahat-e-jaan hain magar is darbadri main.

Aesa hai ke ab dheyaan udhar bhi nahin jata.


Hum dohri aziyat ke giraftaar musaafir.

Paaon bhi hain shall shauq-e-safar bhi nahin jata.


Dil ko teri chahat pe bharosa bhi bohat hai.

Aur tujh se bicharr jaane ka ddar bhi nahin jata.


Pagal huye jaate ho ‘faraz’ us se mile kya.

Itni si khushi se koi mar bhi nahin jata..

Urdu poetry

ANDHERI RAAT KO WOH ..



Andheri raat ko woh mojze dikhayen ge hum,
Charaagh ghar na jala apna dil jalayen ge hum,
Hamari koh-kani ke hain mukhtlif mayar,
PahaRR kaat ke raste naye banayen ge hum,
Jo dil dukha hai to yeh azam bhi mila hai humen,
Tamaam umar kisi ka na dil dukhayen ge hum,
Agar hai maut main kuch lutf to bas itna hai,
Ke is ke baad khuda ka suraagh payen ge hum,
Humen to qabar bhi tanha na kar sake gi nadeem,
Ke har taraf se zameen ko qareeb payen ge hum..

 hi friends Facebook walon ny muj say promise kia hay k ager 1000 log ess post ko shear karein gy to main celebrate ban jaeon gi .if u really think I am a friend of yours to please ess Kam main help karein or jitna zeyada ho saky esy shear karein I think ess main asa kuch nahi Jo kisi ko bhi bura lagy or shear karny ky pesy bhi nahi lagty.
Thanku friends you all are awesome      

Tujhe IshQ ho Khuda Karey..

Tujhe IshQ ho Khuda Karey..
Koi Tujh ko ' Us se Juda Karey..TereY Hont Hansna bhooL Jaayen..Teri Aankh Pur Num raha Karay..Terey samney tera ghar Jalay..Tera bas chalay' na bacha sakey..Teray diL se Nikley yehi Dua..Youn na Ghar kisi ka JaLa Karay..Tujhe Hijar ki wo jhari Lagey..Tu her PaL MiLan ki Dua Karey..Tu Usey dekh k Ro Parey..Wo Nazar Jhuka k ChaLa Karey..Tujhe Neend na aaye Raat bhar..Tu ghari ghari Gina Karey..Hans Hans k sub se MiLa Karey..Chup Chup k tu Roya Karey..Zindagi se Bezaar rahey..Mar Mar k Tu Jiya Karey..Phir tujhe Ishq pe hO YAQEEN...Usey Tasbeehon mein Parha Karey..Phir mein kahun "Ishq to Dhong Hai....!!"Tu "Nahe Nahe" Kia KaraY....!!

Galat Fehmi Main Mat Rehna

Mohabbat Ka Asar Hoga Galat Fehmi Main Mat Rehna
Woh Badle Ga Chalen Apni Galat Fehmi Main Mat Rehna,
Tasalli Bhi Usse Dena Yahe Mumkin Hai Ke Main Lot Aaon,
Magar Yhe Bhi Usse Kehna Galat Fehmi Main Mat Rehna,
Tumhara Tha Tumhara Hon Tumhara Hi Rahonga Main,
Mere Bare Main Is Darja Galat Fehmi Main Mat Rehna,
Mohabbat Ka Bharam Toota Hai Ab Chup Chup Ke Rote Ho
Tumhen Maine Kaha Tha Na Galat Fehmi Main Mat Rehna


Mohabbat Ka Asar Hoga Galat Fehmi Main Mat Rehna,


Aurat

:(
!ﻋﻮﺭﺕ ﺟﺐ ﻏﯿﺮ ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﮯ ،
!ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﮯ، ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮐﺮﮮ ، 
!ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﺎﻟﺺ ﮐﺮ ﺩﮮ،

G! ﺍﺳﮯ ﺳﻮﭼﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﻮﭼﮯ،
 !ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﮐﺮﮮ، ﺭﺍﺕ ﺩﻥ ﻣﻨﺘﯿﮟ ﮐﺮﮮ،
! ﭘﮭﺮ ﺭﻭﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯽ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ،
 !ﺗﻮ ﺍﺱ " ﺭﯾﻠﯿﺸﻦ ﺷﭗ " ﻣﯿﮟ ﻗﺼﻮﺭ ﻭﺍﺭ ﺻﺮﻑ ' ﻋﻮﺭﺕ ' ﮨﮯ،
!ﻣﺮﺩ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍﻓﻮﺭﮈ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ،
 !ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ،
!ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻏﻠﻄﯽ ﮐﺎ ﺧﻤﯿﺎﺯﮦ ﺑﮭﮕﺘﺘﮯ ﺑﮭﮕﺘﺘﮯ ﺗﻨﮑﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ " ﮨﻠﮑﯽ " ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ .
!' ﻏﻠﻄﯽ ' ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ،
!ﻣﮕﺮ ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ " ﮔﻠﮧ " ﮨﮯ،
!ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﺱ " ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﯼ " ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﺗﮏ ﻻﺗﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ،
! ﺟﮩﺎﮞ ﻭﮦ " ﺗﻤﺎﺷﺎ " ﺑﻨﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ 
ﮨﮯ .؟؟؟؟؟؟

The end.dont forget to leave a comment.

Monday, 27 November 2017

ڈاکٹر روتھ فاؤ

یہ خاتون جرمنی کے شہر لائزگ کی رھنے والی تھی۔

پیشے کے لحاظ سے یہ ڈاکٹر تھیں۔

سن 1958ء کی بات ھے اس خاتون نے 30 سال کی عمر میں پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی‘ کوڑھ اچھوت مرض

ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے‘

کوڑھی کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے‘ کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں‘

یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہو جاتا تھا اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔

پاکستان میں 1960ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے‘

یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا‘ ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘

یہ رہائش گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں‘ لوگ آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے‘ لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے‘

ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے تھے‘ پاکستان میں کوڑھ کو ناقابل علاج سمجھا جاتا تھا چنانچہ کوڑھ یا جزام کے شکار مریض کے پاس دو آپشن ہوتے تھے‘ یہ سسک کر جان دے دے یا خود کشی کر لے۔

_______
یہ انتہائی جاذب نظر اور توانائی سے بھر پور عورت تھی اور یہ یورپ کے شاندار ترین ملک جرمنی کی شہری بھی تھی‘

زندگی کی خوبصورتیاں اس کے راستے میں بکھری ہوئی تھیں لیکن اس نے اس وقت ایک عجیب فیصلہ کیا‘یہ جرمنی سے کراچی آئی اور اس نے پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے خلاف جہاد شروع کر دیا

اور یہ اس کے بعد واپس نہیں گئی‘ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک‘ اپنی جوانی‘ اپنا خاندان اور اپنی زندگی تیاگ دی‘

انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا‘

کوڑھ کے مریضوں اور ان کے لواحقین نے اس فرشتہ صفت خاتون کو حیرت سے دیکھا کیونکہ اس وقت تک کوڑھ کو اﷲ کا عذاب سمجھا جاتا تھا‘ لوگوں کا خیال تھا یہ گناہوں اور جرائم کی سزا ہے۔

چنانچہ لوگ ان مریضوں کو گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے تھے‘ ان کے لیے پہلا چیلنج اس تصور کا خاتمہ تھا‘

انھیں بیماری کو بیماری ثابت کرنے میں بہت وقت لگ گیا اور اس کے بعد مریضوں کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا‘یہ عظیم خاتون اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی

جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے۔اس کا جذبہ نیک اور نیت صاف تھی چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا دے دی‘

یہ مریضوں کا علاج کرتی اور کوڑھیوں کا کوڑھ ختم ہو جاتا‘

اس دوران ڈاکٹر آئی کے گل نے بھی انھیں جوائن کر لیا‘ ان دونوں نے کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سینٹر بنایا اور مریضوں کی خدمت شروع کردی‘

ان دونوں نے پاکستانی ڈاکٹروں‘ سوشل ورکرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ٹریننگ کا آغاز بھی کر دیا ۔

یوں یہ سینٹر 1965ء تک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا‘ان ہوں نے جزام کے خلاف آگاہی کے لیے سوشل ایکشن پروگرام شروع کیا‘

ڈاکٹر کے دوستوں نے چندہ دیا لیکن اس کے باوجود ستر لاکھ روپے کم ہو گئے‘

یہ واپس جرمنی گئی اور جھولی پھیلا کر کھڑی ہو گئی‘

جرمنی کے شہریوں نے ستر لاکھ روپے دے دیے اور یوں پاکستان میں جزام کے خلاف انقلاب آ گیا۔

وہ پاکستان میںجزام کے سینٹر بناتی چلی گئی یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی‘ ڈاکٹر نے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔
یہ لوگ نہ صرف کوڑھ کے مرض سے صحت یاب ہو گئے بلکہ یہ لوگ عام انسانوں کی طرح زندگی بھی گزارنے لگے۔

ان کی کوششوں سے سندھ‘ پنجاب‘ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے جزام ختم ہو گیا اور عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا‘

پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا جس میں جزام کنٹرول ہوا تھا‘

یہ لوگ اب قبائلی علاقے اور ہزارہ میں جزام کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے اگلے چند برسوں میں پاکستان سے جزام کے جراثیم تک ختم ہو جائیں گے۔

حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی‘
#
اسے ہلال پاکستان‘ ستارہ قائداعظم‘ ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔

جرمنی کی حکومت نے بھی اسے آرڈر آف میرٹ سے نوازا۔ یہ تمام اعزازات‘ یہ تمام ایوارڈ بہت شاندار ہیں لیکن یہ فرشتہ صفت خاتون اس سے کہیں زیادہ ’’ڈیزرو‘‘ کرتی ہے‘

جوانی میں اپنا وہ وطن چھوڑ دینا جہاں آباد ہونے کے لیے تیسری دنیا کے لاکھوں لوگ جان کی بازی لگا دیتے ہیں اور اس ملک میں آ جانا جہاں نظریات اور عادات کی بنیاد پر اختلاف نہیں کیا جاتا

بلکہ انسانوں کو مذہب اور عقیدت کی بنیاد پر اچھا یا برا سمجھا جاتا ہے‘

جس میں لوگ خود کو زیادہ اچھا مسلمان ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو بلا خوف کافر قرار دے دیتے ہیں۔

ان کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ ھے۔۔

ڈاکٹر روتھ کا عین جوانی میں جرمنی سے اس پاکستان میں آ جانا اور اپنی زندگی اجنبی ملک کے ایسے مریضوں پر خرچ کر دینا جنھیں ان کے اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ جاتے ہیں واقعی کمال ہے ۔

ڈاکٹر روتھ اس ملک کے ہر اس شہری کی محسن ہے جو کوڑھ کا مریض تھا یا جس کا کوئی عزیز رشتے دار اس موذی مرض میں مبتلا تھایا جو اس موذی مرض کا شکار ہو سکتا تھا۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے یہ خاتون‘ اس کی ساتھی سسٹر بیرنس اور ڈاکٹر آئی کے گل پاکستان نہ آتے اور اپنی زندگی اور وسائل اس ملک میں خرچ نہ کرتے تو شاید ہمارے ملک کی سڑکوں اور گلیوں میں اس وقت لاکھوں کوڑھی پھر رہے ہوتے

اور دنیا نے ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے ہوتے‘ ہمارے ملک میں کوئی آتا اور نہ ہی ہم کسی دوسرے ملک جا سکتے۔

یہ لوگ ہمارے محسن ہیں چنانچہ ہمیں ان کی ایوارڈز سے بڑھ کر تکریم کرنا ہو گی۔

Friday, 24 November 2017

Qayamat

Dil Ki Bechaen Umangon Pe Karam Farmaao
Itna Ruk Ruk Ke Chalogi To Qayamat Hogi...!!

Sab friends say guzarish Hy k page k tamam articles ko daily parha karein sehat k leye mufeed hon gy

هنسنامنع هے

,هنسنامنع هے
,
ایک طالب علم نے اپنی استانی سے درخواست کی کہ وہ ان سے کلاس کے بعد کچھ بات کرنا چاہتا ہے تو استانی نے اس کے لئے کلاس کے بعد ملاقات کا ایک وقت مقرردیا۔
ان دونوں کے درمیان اس طرح سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔
استانی : - "آپ کیا بات کرنا چاہتے ہیں؟"
طالب علم:- " مجھے لگتا ہےکہ میں کافی ذہین ہوں اور مجھے اس سے بڑی کلاس میں ہونا چاہئے۔ کیا آپ مجھے اس سے بڑی کلاس میں بھیج سکتی ہیں؟"
استانی نے اس کی اس درخواست کو اسکول کے ڈائریکٹر تک پہنچا دیا اور ڈائریکٹر نے طالب علم کی صلاحیت کا اندازہ کرنے کے لئے ایک انٹرویو لیا ۔
ڈائریکٹر : - "3 ضرب 4 کتنا ہوتا ہے؟"
طالب علم:- " 12 ".
ڈائریکٹر : - " ٹھیک ہے، 6 ضرب 6 کتنا ہوتا ہے؟"
طالب علم:- "36".
ڈائریکٹر : - "جاپان کی راجدھانی کہاں ہے۔ ؟"
طالب علم: - "ٹوکیو"
ڈائریکٹر نے تقریبا آدھا گھنٹہ سوال جواب کیا اور طالب علم نے ایک بار بھی جواب دینے میں کوئی غلطی نہ کی۔
پھر انہوں نے استانی سے کہا کہ اگر آپ کچھ پوچھنا چاہتی ہیں تو پوچھ سکتی ہیں۔
استانی :- " ٹھیک ہے، تو بتائیے کہ وہ کونسی چیز ہے جو گائے کہ پاس چار ہیں اور میرے پاس دو ہیں؟"
(ڈائریکٹر نے بڑے تعجب سے استانی کو دیکھا)۔
طالب علم:- " ٹانگیں استاد محترم!"
استانی :- " بالکل صحیح، اب یہ بتائیے کہ وہ کونسی چیز ہے جو تمہاری پتلون میں ہے اور میری پتلون میں نہیں ہے؟ "
(ڈائریکٹ بڑا حیران ہو اور بڑا شرمندہ ہوا)۔
طالب علم : - "جیب"
استانی : - "عورتوں کے گھنگھریالے بال کہاں ہوتے ہیں؟ "
(ڈائریکٹر حیران و پریشان ہو گیا)۔
طالب علم: -"افریقا میں"
استانی :- " وہ نرم سی چیز کیا ہے جو عورتوں کے ہاتھ میں سخت ہو جاتی ہے؟ "
(ڈائریکٹر کے دل کی دھڑکنیں بند ہو گئیں)۔
طالب علم:- " نیل پالش".
استانی : - "عورتوں اور مردوں کی ٹانگوں کے درمیان میں کیا ہوتا ہے؟" (ڈائریکٹر کی تو آوازبند ہو گئی)۔
طالب علم: - "گھٹنے "
استانی : - " بہت خوب! اب یہ بتائیے کہ وہ کون سی چیز ہے جو شادی شدہ عورت کے پاس کنواری عورت سے بڑی ہوتی ہے؟"
(ڈائریکٹر کا تو بدن ہی شل ہو گیا)۔
طالب علم:- " چار پائی".
استانی :- "میرے جسم میں وہ کون سی جگہ ہے جہان پر رطوبت سب سے زیادہ ہوتی ہے؟"
(ڈائریکٹر نے آسمان کی طرف دیکھا اور اللہ سے مددمانگنے لگا)۔
طالب علم : -
"زبان ۔ اے استاد محترمہ!"
یہ سب سننے کے بعد ڈائریکٹرنے کہا: -
"میں اپنی سوچ پر لعنت بھیجتا ہوں۔ تم یونیورسیٹی جاؤ اور میں پرائمری اسکول جاتا ہوں ۔۔

Kangan

¤KANGAN¤
<Wasi shah>

Kash men tere hasin hath ka kangan hota

... To bare piar bare chao se bare maan k sath

Apni nazak se kalai pe charhati muj ko

Our betabi se furqat k khzan lamhon men

To kisi soch men dobi jo gamati mujh ko

Men tere hath ki khushboo se mehak sa jata

Jab kabi mood men aa kar chooma karti

Raat ko jab b to nendon k safar par jati

Marmarin hath ka ik

takia banati

men tere kanon se lag kar kai baten karta

Teri zulfon ko tere gaal ko chooma karta

kuch nahin to yahi benam sa bandan hota

Kash men tere hasin hath ka kangan hota...

Thursday, 23 November 2017

POetry



بہت مدت سے ایسا ہے
کہ تم خاموش رہتے ہو

کوئی گہرا ہے غم شاید
جسے چپ چپ سہتے ہو


یونہی چلتے ہوئے تنہا
کوئی غمگین سا نغمہ

تم اکثر گنگناتے ہو
دوران گفتگو یونہی

ملیں نظروں سے جب نظریں
تو باتیں بھول جاتے ہو

کسی گم سم سی حالت میں
یا پھر بارش کے موسم میں

فقط اتنا ہی کہتے ہو
اداسی بےوجہ سی ہے

بہت بوجھل طبیعت ہے
بھلا سچ کیوں نہیں کہتے

کسی کو یاد کرتے ہو


Mehman





مہمان چار دن کے اور گھر سمجھ لیا ہے
ہم نے سراب کو ہی منظر سمجھ لیا ہے
کتنوں نے کر لیا ہے دنیا کو اب مسخر
خود کو سکندروں سے برتر سمجھ لیا ہے
اچھا ہے کیا برا کیا، اس بات سے غرض کیا
بس ذات ہی کو اپنی محور سمجھ لیا ہے
بھولے کتاب کو ہم، پیغام سارا بھولے
بھٹکے مسافروں کو رہبر سمجھ لیا ہے
ہوتے سبق نہیں جو اب یاد اس جہاں کو
ان کو نصاب سے ہی باہر سمجھ لیا ہے
تہذیب اپنی کھوئی، کھو بیٹھے علم سارا
رنگینئی جہاں کو زیور سمجھ لیا ہے
خود نقص سے مبرا، خود عیب سے ہیں عاری
اور سب کو راستے کا پتھر سمجھ لیا ہے
سمجھے گا خاک کوئی اب راز اس جہاں کے
قطرے نے خود کو ابرک ساگر سمجھ لیا ہے

Intazar




بیٹھی رہوں گی کب تلک اس انتظار میں
ڈوبی ہوئی ہے شام بھی شب کے خمار میں
کس درجہ بے سکوں ہیں محبت کے بعد ہم 
صدیاں غموں کی سونپ دیں دو دن کے پیار میں
ساحل پہ بھی حیات تھی اک مرگ ناگہاں 
غم کی ہے بھیڑ ہر طرف اس لالہ زار میں
اب موسمِ خزاں کے رہیں کیوں نہ منتظر 
ویران کر دیا ہے چمن کو بہار میں
رسوا تھے پر نہ اتنے ہوئے جب سے تنگدست 
تھوڑا بھرم بھی رہنے دیا نہ ادھار میں
دورِ فغاں میں آہ بھی بھرنے پہ ہے سزا 
مشکل ہے زندہ رہنا تری اس بہار میں
یہ اہل شہر کس لئے وشمہ سے ہیں خفا
کچھ بھی نہیں ہے جب کہ یہاں اختیار میں

Afsana



                                                                       
                                                                             




افسانہ
" ساون کے آنسو "
مون سون اپنے شباب پر تھا ۔ 
ایسے میں گیلے موسم کی شامیں اسے گزشتہ حیات کے پرسکون ماحول میں گھسیٹ لاتیں تو اضطراب کی یہ ساعتیں اسے بے سکون کردیتی تھیں ۔۔۔۔
اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے ۔۔۔۔۔ وہ ان یادوں کے حصار میں قید سی ہوگئی ہے ۔
چنگھاڑتی بارشیں گرمیوں کو زوال پذیر کرچکی تھیں ۔۔۔۔
خاموش نیم تاریک راتوں میں کبھی کبھی برستی بارش کا شور کمرے کی سیلن اور ہوا میں نمی کے غیر معمولی اضافہ نے اسکے مندمل زخموں کو پھر سے ہرا کردیا تھا ۔۔۔
وہ غیر اختیاری انداز میں کچھ تلاش کرتی لیکن جلد ہی اسکے احساسات مردہ ہوجاتے ایسے جیسے انگیٹھی میں ادھ جلی لکڑیاں راکھ کا ڈھیر ہوں ۔۔
چنانچہ اس کیفیت سے نکلنے کے لیئے اس نے کمرے کی ہلکی بتی روشن کی ۔ کتاب کو گود میں لیا ۔ اور رات کے مہیب سناٹے میں اسکی روگردانی شروع کردی ۔۔۔
کتاب کا پہلا پیراگراف " اردگرد کے ماحول کو خاطرمیں لائے بغیر دونوں نوجوان جوڑے خودکار زینے پر سوار بوس و کنار میں مصروف تھے ۔۔ اسی زینے پر ایک ادھیڑ عمر عورت بھی تھی جس نے ناگواری کے اثرات اپنے چہرے پر مرتب کیئے مگر خاموش رہی ۔۔۔ پھر خودکار زینے کا سفر تمام ہوا اور اب انھیں پیدل ایک ساتھ چلنا تھا ۔۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ادھیڑ عمر عورت جوڑے سے مخاطب ہوئی " اب تم دونوں کو زمین پر ایک ساتھ چلنا ہے اگر تم دونوں نے ایک دوسرے کو تکلیف دی تو سب سے زیادہ موسم کی رتیں تمہیں پریشان کرینگی" ۔۔۔


تھوڑی ہی دیر میں مون سون اسکے کمرے میں داخل ہوچکا تھا اور گھن گھرج کے ساتھ برس رہا تھا ۔
سید صداقت حسین ۔ کراچی ۲۰ جولائی ۲۰۱۶

Shaheed




ہیں نہیں مریخ سے نہیں آیا تھا 

یہیں کا تھا , یہاں ہی پلا بڑھا , یہیں کی مسجد میں ننھے ہاتھوں میں قاعدہ اور سر پر ٹوپی لئے سپارہ پڑھنے جاتا تھایہاں ہی کے سکول میں وہ ہمارے ساتھ بستہ کمر پہ باندھے کھلکھلاتے چہرے کے ساتھ شعور کی جستجو میں جاتا تھا یہیں , اسی گراؤنڈ میں وہ کرکٹ کھیلتا , چھکے لگاتا , آؤٹ ہوتا , یا فٹبال , ہاکی , کبڈی کھیلتاوہ مریخ سے نہیں آیا تھا ... یہیں کا تھا .. ہم سب کے درمیان پلا , بڑھا , بڑا ہواوہ کوئی انوکھا نہیں تھا .. ایسا ہی تھا جیسا میں جیسے تم اس کے ماں باپ بھی تھے , بہن بھائی بھی , بیوی بچے بھی ... اسکے چھوٹے چھوٹے مسلے بھی تھے , چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی بلکل ایسے ہی جیسے میرے یا تمہارےوہ بھی نماز اکٹھے ایسے ہی پڑھتا جیسے میں اور تم وہ بھی جمعہ کی صف میں ہمارے ساتھ ہوتا تھا , محلے کے مسلوں وہ بھی شانہ بشانہ ہوتا تھاوہ کوئی سپر مین نہیں تھا , عام ہی تھا , اسے بھی زخم لگتے تھے , اسے بھی تکلیف ہوتی تھی , اسے بھی میری تمہاری طرح حوصلوں کی ضرورت ہوتی تھی اس کی بھی خواہشیں تھی , اسکے بھی خواب تھے , وہ ہنستا بھی تھا وہ روتا بھی تھا , خوش بھی ہوتا تھا , پریشان بھی .... بلکل ہماری طرحلیکن وہ عظیم تھا , اس نے اپنی خواہشیں اپنے خواب , اپنا جسم اپنا خون , اپنا مقصد , اپنی جان , اور اپنے رشتوں سے تعلق میرے تمہارے لئے قربان کردیا میری اور تمہاری حفاظت کے لئے , ہماری بقا کے لئے ورنہ وہ کوئی مریخ سے نہیں آیا تھا ایسا ہی تھا ... جیسا میں ... جیسے تمسلام اے شہید وطن۔۔۔

Gazal


.,.....GAZAL.......
NA Paa Saka Na Bhula Saka
Na Dil Ki Bat Usay Bata Saka

Wo Hansi Hansi Mein Hi Chal Deya,
K Main Hath Tak B Na Hila Saka.
Yoon Hi Sochta Raha Main Door Tak,
Magr Us Ko Kuch B Na Bata Saka.
Ye Muqaam Hi Tha Ajeeb Sa,
K Main Khud Ko B Na Bacha Saka.
Wo Juda Huve To Kuch is Tarah,
Koi Rasm Tk Na Main Nibha Saka
Usay Jana Tha Wo Chala Gaya,
Usy Aj Tak Na Main Bhula Ska...!!

Funny Phone


                تو نے جب فون پاوچ سے نکالا 
ہوگا
       دینے والا بھی تجھے یاد تو آیا ہوگا ؟

                                                      Asalam-o-ealekum friends Facebook walon ny muj say promise kia hay k ager 1000 log ess post ko shear karein gy to main celebrate ban jaeon gi .if u really think I am a friend of yours to please ess Kam main help karein or jitna zeyada ho saky esy shear karein I think ess main asa kuch nahi Jo kisi ko bhi bura lagy or shear karny ky pesy bhi nahi lagty.
Thanku friends you all are awesome      

Kahani Khatam


Hamesha Hi Nahi Rehte Kabhi Chehre Naqabon Main Sabhi Kirdaar Khulte Hain Kahani Khatm Hone Par...

 hi friends Facebook walon ny muj say promise kia hay k ager 1000 log ess post ko shear karein gy to main celebrate ban jaeon gi .if u really think I am a friend of yours to please ess Kam main help karein or jitna zeyada ho saky esy shear karein I think ess main asa kuch nahi Jo kisi ko bhi bura lagy or shear karny ky pesy bhi nahi lagty.
Thanku friends you all are awesome      


Tehzeeb ki lashh

Asalam o ealekum , Kuch din pehly hamari gerat kachray k dheer par pari mili thi or ab tehzeeb ki lashh ek car sy baramad hoi hay , Se...