افسانہ
" ساون کے آنسو "
مون سون اپنے شباب پر تھا ۔
ایسے میں گیلے موسم کی شامیں اسے گزشتہ حیات کے پرسکون ماحول میں گھسیٹ لاتیں تو اضطراب کی یہ ساعتیں اسے بے سکون کردیتی تھیں ۔۔۔۔
اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے ۔۔۔۔۔ وہ ان یادوں کے حصار میں قید سی ہوگئی ہے ۔
چنگھاڑتی بارشیں گرمیوں کو زوال پذیر کرچکی تھیں ۔۔۔۔
خاموش نیم تاریک راتوں میں کبھی کبھی برستی بارش کا شور کمرے کی سیلن اور ہوا میں نمی کے غیر معمولی اضافہ نے اسکے مندمل زخموں کو پھر سے ہرا کردیا تھا ۔۔۔
وہ غیر اختیاری انداز میں کچھ تلاش کرتی لیکن جلد ہی اسکے احساسات مردہ ہوجاتے ایسے جیسے انگیٹھی میں ادھ جلی لکڑیاں راکھ کا ڈھیر ہوں ۔۔
چنانچہ اس کیفیت سے نکلنے کے لیئے اس نے کمرے کی ہلکی بتی روشن کی ۔ کتاب کو گود میں لیا ۔ اور رات کے مہیب سناٹے میں اسکی روگردانی شروع کردی ۔۔۔
کتاب کا پہلا پیراگراف " اردگرد کے ماحول کو خاطرمیں لائے بغیر دونوں نوجوان جوڑے خودکار زینے پر سوار بوس و کنار میں مصروف تھے ۔۔ اسی زینے پر ایک ادھیڑ عمر عورت بھی تھی جس نے ناگواری کے اثرات اپنے چہرے پر مرتب کیئے مگر خاموش رہی ۔۔۔ پھر خودکار زینے کا سفر تمام ہوا اور اب انھیں پیدل ایک ساتھ چلنا تھا ۔۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ادھیڑ عمر عورت جوڑے سے مخاطب ہوئی " اب تم دونوں کو زمین پر ایک ساتھ چلنا ہے اگر تم دونوں نے ایک دوسرے کو تکلیف دی تو سب سے زیادہ موسم کی رتیں تمہیں پریشان کرینگی" ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں مون سون اسکے کمرے میں داخل ہوچکا تھا اور گھن گھرج کے ساتھ برس رہا تھا ۔
سید صداقت حسین ۔ کراچی ۲۰ جولائی ۲۰۱۶
No comments:
Post a Comment