مہمان چار دن کے اور گھر سمجھ لیا ہے
ہم نے سراب کو ہی منظر سمجھ لیا ہے
کتنوں نے کر لیا ہے دنیا کو اب مسخر
خود کو سکندروں سے برتر سمجھ لیا ہے
اچھا ہے کیا برا کیا، اس بات سے غرض کیا
بس ذات ہی کو اپنی محور سمجھ لیا ہے
بھولے کتاب کو ہم، پیغام سارا بھولے
بھٹکے مسافروں کو رہبر سمجھ لیا ہے
ہوتے سبق نہیں جو اب یاد اس جہاں کو
ان کو نصاب سے ہی باہر سمجھ لیا ہے
تہذیب اپنی کھوئی، کھو بیٹھے علم سارا
رنگینئی جہاں کو زیور سمجھ لیا ہے
خود نقص سے مبرا، خود عیب سے ہیں عاری
اور سب کو راستے کا پتھر سمجھ لیا ہے
سمجھے گا خاک کوئی اب راز اس جہاں کے
قطرے نے خود کو ابرک ساگر سمجھ لیا ہے
No comments:
Post a Comment