Sunday, 17 December 2017

بیس برس After twenty years

انگریزی کہانی
بیس برس بعد
مصنف...
او ہنیری. امریکہ
ترجمہ...
ناصر خان ناصر.نیو اورلینز.لوزیانہ امریکہ
*********************************
سڑک پر مٹرگشت کرتے پولیس مین کا انداز دلنشیں لگتا تها.... مگر یہ دلکشی محض دکهاوے کی نہیں،بلکہ قدرتی سی اور عادتا" لگتی تهی کہ اسے دیکهنے والے تهے ہی کہاں؟... اگرچہ ابهی رات کے محض دس ہی بجا چاہتے تهے مگر خنک ہواوں کے جھکڑ اور تیز و تند بارش کے آثار کی بدولت سڑکیں ویران ہو چکی تهیں...
سڑکیں ناپتا وہ بانکا پولیس مین اپنی لاٹهی کو عجب پیچدار دقیق شاطرانہ انداز سے گهماتا، اچهالتا، خود بهی اچهلتا کودتا،ادهر ادهر عقابی نظروں سے تکتا،اپنی دھن میں مست یوں چلا جا رہا تها کہ اسے دیکھتے ہی امن و امان کے اک بانکے طرحدار محافظ کی مکمل تصویر من میں ابهر آتی تهی...
اس علاقے پر جلد ہی یوں خاموشی طاری ہو جاتی تهی کہ سر شام ہی یہاں الو بولنے لگتے تهے ...کبھی کبهار سگار کی اکا دکا دوکانوں یا دن رات کهلے کهانوں کے ڈهابوں کی روشنی سی جهلملا اٹھتی...سڑک پر زیادہ تر تو بس دوکانیں ہی دوکانیں تهیں، جن کے دروازے کبهی کے بند ہو چکے تهے.
اک خاص بلاک کے عین درمیان پہنچ کر اچانک پولیس مین ٹهٹهک کر سست پڑ گیا.ایک آہنی آلات کے سٹور کی اندھی دهندلی سی راہداری میں ایک شخص ان جلا سگار منہ میں دابے جهکا ہوا کهڑا تها...جوں ہی پولیس مین اس آدمی کے قریب پہنچا،وہ شخص آہستگی سے گویا ہوا "سب کچھ ٹهیک ٹهاک ہے آفیسر!،میں بس اپنے ایک دوست کا انتظار کر رہا ہوں"
انتظار...!
"یہ ملاقات دراصل بیس سال پہلے کی طے کردہ ہے"...
"آپ کو کچھ عجیب سا لگا...ہے ناں!
ہاں ٹهیک ہے... میں سمجھاتا ہوں "
بیس سال قبل عین اسی جگہ پر، جہاں اب یہ سٹور بنا ہے، اک ریستوران ہوا کرتا تها..."
"نک جو بریڈی کا ریستوران..."
"پانچ برس پہلے تک تو موجود تها" پولیس مین نے کہا..."پهر گرا دیا گیا..."
راہداری میں کهڑے شخص نے ماچس کی تیلی جلا کر اپنا سگار سلگایا...
روشنی میں پیلا پڑتا چہرہ، چوکور سا جبڑا، تیز طرار،زود فہم چمکتی آنکهیں ...اس شخص کی جهلک سی دکهائ دی، اس کی دائیں بهنووں کے قریب زخم کا بهورا سا نشان تها... اندهیرے میں اس کا ہیرے جڑا بروچ جھلملایا...
"بیس برس قبل،اک ایسی ہی رات تهی، جب میں نے اسی جگہ...بگ جو بریڈی کے ریستوران میں جمی ویلز کے ساتھ ڈنر کیا تها..."آدمی نے کہا."میرا جگری...لنگوٹیا یار....وہ دنیا کا بہترین ادمی تها!... ہم دونوں یہیں، اسی نیو یارک ہی میں جنمے، پلے بڑهے تهے...بالکل دو سگے بهائیوں ہی کی طرح.. اکٹھے، میں اٹھارہ برس کا تها اور جمی بیس برس کا..."
"اگلی صبح مجهے مغرب کی جانب اپنی قسمت آزمائ کے لئے سفر اختیارکرنا تها ...مگر پیارے جمی صاحب کو نیو یارک سے زبردستی دیس نکالا دینا ممکن نہیں تها.
جان عزیز...اسے نیو یارک میں ہی پورا عالم دکهتا تها.
خیر...
اسی رات ہم دونوں نے طے کیا کہ ہم دونوں عین اسی جگہ بیس برس بعد ضرور ملیں گے...
بے شک جو کچھ بھی ہمارے حالات ہوں...
چاہے جتنی دور سے بهی ہم کو آنا پڑے، ہمیں ضرور یہاں واپس لوٹنا اور ملنا ہی ہو گا...
ہم نے سوچا...
بیس برس بڑی مدت ہوتی ہے...
تب تک ہم دونوں اپنی اپنی منزلوں،راستوں کا تعین کر چکے یوں گے...ہمارے نصیب کا لکها ہمیں مل ہی چکا ہو گا..."
"یہ تو بڑا دلچسب قصہ لگ رہا ہے " پولیس مین نے فرمایا...."واہ بهئ ...یہ ملاقات اک لمبی جدائ کے بعد ہو رہی ہے.
کیا آپ دونوں نے جدائ کی اس مدت میں خیر خریت ،احوال کبهی نہ بانٹے؟ "
"ہاں جناب، کچھ عرصہ تک تو ہم دونوں کے درمیاں خط و کتابت چلتی رہی...مگر یہی سال دو سال .پهر ہم دونوں بهول بهلا بیٹهے...".
"دیکهیں جی...مغرب بڑا وسیع و عریض خطہ ہے. پهر میں وہاں طرح بہ طرح کے عیش کرتا، موجیں اڑاتا رہا... دل لگ جائے تو سب کچه بهلا ہی لگتا ہے...
مجھے معلوم ہے کہ جمی...
اگر زندہ ہے تو...
مجهے آج یہاں ضرور ملے گا....
وہ دنیا بهر میں سب سے سچا، مخلص اور کهرا انسان ہے.
وہ کبھی بھی نہیں بھول سکتا.
میں ہزارہا میل دور سے آ کر یہاں...آج رات...اس راہداری میں منتظر کهڑا ہوں...
ہاں...میرا بچهڑا یار مل جائے تو.."
انتظار کرتے آدمی نے جیب سے جھلملاتی گهڑی نکالی جس کے ڈائل پر جڑے ہیرے چکا چوند جگمگا رہے تهے...
"دس بجنے میں تین منٹ...،
اس رات جب ہم ریستوران سے نکل کر بچھڑے تهے تو عین یہی وقت تها."
"تو مغرب میں خوب کمایا صاحب؟"
"بالکل جی...
مجهے امید ہے بیچارے جمی نے بهی...
بهلے آدها پونا سہی، کچه نہ کچھ کمایا ضرور ہو گا...
دراصل وہ کچھ سست وست سا تها جی...
ہاں، نیک بخت ایسا ہی تها.
مجهے اپنی اندهی کمائ کے لئے عقل و دانش کی لاٹهی گهمانا پڑی...
نیو یارک میں تو انسان کهائ میں پهنس کر رہ جاتا ہے... مغرب میں جا کر ہی گرم سرد چکهنے سے ...تراش خراش ہوتی ہے."
پولیس مین نے اپنا لٹھ گهمایا اور ایک آدھ قدم آگے بڑها.
"میں تو چلا...امید ہے آپ کو آپ کا دوست بخریت آن ملے گا. کیا عین ٹائم تک ہی ان کی راہ دیکھئے گا؟"
"نہیں جی، بس یہی آدھا پونا گهنٹہ اور راہ تکتا ہوں. تب تک اگر اس نے آنا ہے، تو اسے آ ہی جانا چاہیے...
خدا حافظ آفیسر"
"شب بخیر جناب"...
پولیس مین آگے بڑھ گیا...اب تک مہین بوندا باندی شروع ہو چکی تهی. سرد ہوائیں تهپیڑے مارتی اڑتی تهیں.خاموش پڑی سڑک پر اکا دکا پیدل چلتے لوگ اپنے کوٹوں کے کالر اونچے کئے، ہاته جیبوں میں چهپائے تیز قدم اٹهاتے غائب ہونے لگے تهے..
آہنی سامان کے اس سٹور کی راہداری میں سگار کے کش لگاتا، ہزارہا میل دور سے آ کر اپنے پرانے بچهڑے دوست سے ملن کی آس لگائے وہ شخص چپ چاپ کهڑا ...بھیگتا رہا.
اس نے تقریبا دس منٹ ہی مزید انتظار کیا ہو گا کہ لانبے اورکوٹ میں ملبوس کالر اونچے کئے، کان ڈھانپے ایک لمبا سا آدمی سڑک کی دوسری جانب سے آتا دکهائ دیا.
وہ سیدها انتظار کرتے آدمی کے پاس پہنچا...
"کیا یہ تم ہو؟ ...باب!"
اس نے غیر یقینی آواز میں پوچها.
"ارے...یہ تم ہو جمی ویلز" راہداری میں کهڑا آدمی سسکا...
"خدا سلامت رکهے، میری جان..."آنے والے نے اسکی طرف باہیں پهیلاتے ہوئے کہا.
"زہے نصیب...یہ باب ہی تو ہے"...اس نے خود کلامی کی.
"اچها اچها...بیس سال بڑی مدت ہوتی ہے. یہاں کا پرانا ریستوران بهی اڑنچهو...کاش موجود ہوتا تو پهر اکٹهے ڈنر کرتے...
"مغرب کیسا رہا، بڈهے آدمی؟" وہ چہچہایا.
"بلی...اس نے ہر وہ شے میں نے جس کی تمنا کی،میری جهولی میں ڈال دی..."
"ارے... تم تو کافی بدل گئے ہو... میں نے کبهی سوچا ہی نہیں تھا کہ تم مجھ سے بهی لمبے ہو جاو گے!"
"ہاں... بیس برس میں میرا قد کچھ بڑھ ہی گیا..."
"جمی... تم نیو یارک میں ٹهیک ٹهاک تو رہے ناں یار...؟ "
"کم و بیش... ہاں...بس ٹھیک ٹهاک ہی ہوں... مجهے شہر کے ایک محکمے میں نوکری ملی ہوئ ہے... چلو باب... مجهے ایک بڑی اچهی جگہ معلوم ہے، وہیں چلتے ہیں ...پهر خوب گپیں ہانکتے ہیں...پرانے وقتوں کی یادیں تازہ کرتے ہیں..."
دونوں آدمی شانہ بشانہ سڑک پر چل پڑے. مغرب سے آیا شخص جو اپنی کامیابیوں پر بے حد مسرور و مغرور تها ،من ہی من میں خود پر نازاں ہو کر اپنی داستاں کی تہمید بانده چکا تها...اورکوٹ میں چهپا دوسرا شخص نہایت انہماک سے لن ترانیاں سن رہا تها کہ اچانک وہ دونوں نکڑ پر واقع ڈرگ سٹور کی جگمگاتی منور خیزاں روشنی تک آن پہنچے...دونوں آدمیوں نے وہاں ایک دوسرے کو غور سے دیکها...
مغرب سے آیا ہوا شخص اچانک رک گیا...اور آہستگی سے اپنا بازو چهڑوا لیا...
"تم جمی ویلز نہیں ہو...! " وہ دهاڑا...
"بیس برس یقینا" لمبا عرصہ ہوتا ہے...مگر اتنا لمبا بهی نہیں کہ انسان کی لانبی اطالوی ستوان ناک پیہ پهری پهینی بن جائے..."
"وقت کبھی کبهار بهلے آدمی تک کو خراب کر دیتا ہے" لمبے آدمی نے طنزیہ کہا.
"تم پچھلے دس منٹوں سے گرفتار کئے جا چکے ہو...."
"چالاک باب....شکاگو (پولیس) کا خیال تھا کہ تم یہیں کہیں چهپے ہو، انهوں نے ہمیں تار دیا ہے کہ وہ تم سے کچھ گفت و شنید کرنا چاہتے ہیں ..."
"خاموشی سے چلتے ہو ناں...زیادہ ہوشیاری نہیں...یہی سمجهداری ہے... مگر پولیس اسٹیشن چلنے سے قبل زرا یہ اک نوٹ تو پڑھ لو...مجهے یہ تم تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے. "
"تم اسے یہاں کھڑکی سے آتی روشنی میں پڑھ سکتے ہو...یہ گشت کار آفیسر ویلز کی طرف سے ہے"
مغرب سے آئے آدمی نے ہاته میں تهمایا رقعہ کهولا... اپنے مضبوط ہاتهوں میں تهام کر اسے پڑهنا شروع کیا مگر اختتام سے قبل ہی اس کے ہاته کانپنے لگے. یہ اک مختصر سا نوٹ تها...
"باب، میں وقت مقررہ پر ہی وہاں تها... جب تم نے اپنا سگار سلگانے کے لئے ماچس کی تیلی جلائ تو میں نے شکاگو میں مطلوب اشتہاری مجرم کا چہرہ فورا" پہچان لیا... میں یہ خود نہیں کر سکتا تها لہذا اس کار خیر کے لئے سادہ کپڑوں میں ملبوس اپنے اک ساتهی کی مدد حاصل کرنا ہی پڑی...
"جمی"...
*********************************************
English store
Writer
O hanrey
America

No comments:

Post a Comment

Tehzeeb ki lashh

Asalam o ealekum , Kuch din pehly hamari gerat kachray k dheer par pari mili thi or ab tehzeeb ki lashh ek car sy baramad hoi hay , Se...