Sunday, 17 December 2017

Phophi ka beta

ہون چنگی رئیں ایں؟
ثاقب اور نائلہ دونوں کزن تھے۔ بچپن سے ساتھ کھیلے اور بڑے ہوئے۔ ثاقب پڑھ لکھ نہ سکا۔ مزدور طبع تھا قرب و جوار میں اسے ٹائٹ بچی یہی نظر آئی اسی لئے دل و جان سے اس پر فدا تھا۔
نائیلہ نے ایم اے کرلیا لیکن وہ مادیت پرست ہوگئی۔ ہم ٹی وی کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر وہ بھی چھے چھکے ایک سو چھتیس کہنے لگی تھی۔ جب شادی کا وقت آیا تو ثاقب نے گھر والوں کی معرفت نائیلہ کے گھر رشتہ بھجوایااور خود پیشگی سیلبریٹ کرنے کے لئےدوست کی بیٹھک میں نینا ( اگر اس فلم کا آپ کو نہیں پتا تے درفٹے منہ عمران خان تے) کے دو حصوں کی ویڈیو کیسٹس لے کر پہنچ گیا لیکن ماڑی قسمت اسی وقت ایک آرمی کے سیکنڈ لفٹین کا بھی پروپوزل آگیا۔
ثاقب ایک روایتی مٹھل چول مڈل کلاسیا تھا۔ اور مقابلہ کڑکتی وردی اور چمچماتے بوٹوں سے تھا، اسی لئے حسب دنیا، حسب معاشرہ اور حسب کڑیاں وہ ہار گیا۔ نائلہ کی شادی لفٹین کے لائے ہوئے ساٹھ ہزار کے لہنگے سے ہوگئی اور وہ اس کے گھر چلی گئی۔
ثاقب رئیل اسٹیٹ کے شعبہ سے منسلک تھا۔ اس نے اپنی والدہ کے حکم پرایک ترکھڑ سی لڑکی سے شادی رچالی اور اسے اندھیرے میں آدیتی راو حیدری سمجھتے ہوئے بچوں کی سالانہ پیداوار میں اضافے میں اپنا حصہ ڈالنے لگا۔ جب چار بچے ہوگئے تو پھر روایتی کھوتا بنتے ہوئے ان کا معاشی مستقبل بہتر بنانے کی تلاش میں جت گیا۔
دوجے پاسے لفٹین، کپتان ہوئے، پھر میجر اور بالآخر کرنل کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوگئے۔ جو کمایا تھا ۔ اس سے عسکری ہاوسنگ میں گھر بنایا اور مزید پیسے بنانے کے لئے رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے منسلک ہوگئے کہ ان سے پہلے جو افسران ریٹائڑ ہوئے تھے۔ سب اسی شعبہ سے چمٹے ہوئے تھے۔
کرنل صاحب کی ایک ارب پتی پراپرٹی ٹائیکون سے یاد اللہ ہوگئی ۔ اور وہ اس کے پیچھے ایسے دم ہلاتے پھرنے لگے جیسے آج کل پی آئی بی والوں کے منتخب کونسلر ، رینجرز کے دفتر کے باہر ٹہل رہے ہوتے ہیں۔
ایک دن گھر آتے ہیں اور نائلہ جو اب ایک ہفتہ تھریڈنگ نہ کروائے تو راجہ ریاض جیسی لگنے لگتی ہے ، سے منہ پھیر کر بات کرتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہارکرتے ہیں کہ اگر ان کے بیٹے کا رشتہ اس پراپرٹی کنگ کی بیٹی سے ہوجائے تو انہیں کروڑوں روپے سرمایہ کاری کے لئے مل سکتے ہیں۔ نائیلہ اپنے کرنل شوہر اور بیٹی کو لے کر پراپرٹی ٹائیکون کے محل نما گھر میں دعوت کے لئے جاتی ہے۔ وہاں جاکر یہ دیکھ کر اس کا سارا کچھ ارتھ ہوجاتا ہے کہ پراپرٹی ٹائکون اصل میں اس کا وہی کزن ثاقب ہے جس کا رشتہ اس نے ٹھکرادیا تھا۔
ثاقب کی شان و شوکت اور اس کی عندلیب عباس کی شکل والی بیگم کی آکڑ دیکھ کر نائیلہ کا منہ دو نومبر کو اسلام آباد پولیس کے ٹوئی پر لتر کھاتے کی بوتھی کی طرح سوج جاتا ہے۔
وہ گھر آکر شوہر کو بتاتی ہے کہ ثاقب تو اس کا کزن ہے۔ یہ سن کر کرنل صاحب کی رال ایسے ہی بہنے لگتی ہے جیسے سوات کی اربوں روپے مالیت کی زمین کو دیکھ کر وہاں کے کمانڈںٹ کی ٹپکی تھی۔
وہ نائلہ سے کہتا ہے کہ وہ دفتر جاکر اپنے کزن سے ملے اور اسے ایسے قائل کرنے کی کوشش کرے جیسے رانا ثناء اللہ وزیر اعظم ہاوس جاکر نواز شریف کی توسیع کے لئے منتیں کیا کرتا تھا۔
نائلہ اگلے دن شیریں مزاری کی طرح ٹرانسپیرنٹ جامنو رنگ کا سوٹ پہن کر ثاقب کے دفتر جاپہنچتی ہے۔ چائے پینے کے بعد مدعا لب پر لاتی ہے۔
ثاقب مسکراتا ہے۔ پھر اٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھتا ہے۔ پھر قہقہہ لگاتا ہے۔ پھر ہنستا چلا جاتا ہے۔
نائلہ پوچھتی ہے کہ تم ہنس کیوں رہی ہو؟
ثاقب کہتا ہے۔ ہنسی اس بات پر آرہی ہے کہ تمھارا شوہر جس رجمنٹ میں کرنل تھا۔ اس کا بریگیڈئیر میری کمپنی میں سیکیورٹی سنبھالتا ہے اور منیجر آپریشن اسی رجمنٹ کا میجر جنرل ہے۔ وہ دونوں بھی اپنے بیٹوں کے لئے میری بیٹی کے رشتے کے خواہشمند ہیں۔
نائیلہ کا منہ نعیم الحق کے گندے میسج رسیو کرنے والی ریہام خان کی طرح سرخ ہوجاتا ہے اور وہ واپس لوٹ آتی ہے۔
مورل آف دا اسٹوری: نائلہ مت بنیں اور اپنی پھوپھی کے بیٹے ثاقب کو انڈرایسٹیمیٹ نہ کریں۔.  
 Writer:Zain Ali

No comments:

Post a Comment

Tehzeeb ki lashh

Asalam o ealekum , Kuch din pehly hamari gerat kachray k dheer par pari mili thi or ab tehzeeb ki lashh ek car sy baramad hoi hay , Se...