پیسہ بن جائے جب زباں صاحب
کس کو سچا کہیں وہاں صاحب
یہ غلامی ہے ناخداؤں کی
سوچ اپنی ہے اب کہاں صاحب
کس کی پھر سچ تلک رسائی ہو
جھوٹ پڑتا ہے درمیاں صاحب
چاہے عالم ، بزرگ ، ملا ہو
سب کے ہیں نو رتن بیاں صاحب
کون میرے جہان کی سوچے
اپنا اپنا ہے اب جہاں صاحب
ایک بس میرا گھر بچا لینا
پھونکئے اور سب مکاں صاحب
اب قلم ہو ، زبان ہو ، دل ہو
ان سے اٹھتا ہے بس دھواں صاحب
سب حقیقت سے منہ چھپاتے ہیں
یہاں بِکتے ہیں بس گماں صاحب
جھوٹ در جھوٹ جھوٹ ہے سارا
سچ ہے نا پید اب یہاں صاحب
مانا شیطاں زمیں پہ حاوی ہے
کاہے چپ ہے یہ آسماں صاحب
کیسے بولوں یہاں میں سچ ابرک
لوگ کہتے ہیں بد زباں صاحب
No comments:
Post a Comment