مسیحا کی موت ------
بغیر کھڑکی اور سفید ٹائلوں والا یہ کمرہ آج بہت اداس ہے-
اس کمرے کی کل کائنات ایک بیڈ، ایک سنک ایک چولہا اور ایک بوڑھا تھا۔ زندگی بھر انسانیت کی خدمت کرنے والا بوڑھا آج 88 سال کی عمر میں چل بسا-
کراچی کی گلیوں میں کھڑی کسی ایمبولینس کے اسپیکر سے شاید اب یہ صدا سنائ نہ دے کہ " ایدھی صاحب یہاں موجود ہیں اور آپ کی امداد کے منتظر ہیں "- اہلیانِ کراچی سڑک کے کنارے قراقلی ٹوپی پہنے اس کمزور، سفید داڑھی والے شخص کو شاید اب کبھی نہ دیکھ پائیں جس کے پاس رک کر وہ عقیدت کا اظہار کرتے اورامداد دیتے تھے۔ جسے دیکھ کر ہاتھ خود بخود جیب کے اندر چلے جاتے تھے-
بھارتی گجرات میں 1928ء میں آنکھ کھولنے والا یہ شخص کمال کی زندگی جیا ہے اور کمال کی موت مرا ہے-
1947ء میں اپنی مفلوج اور دماغی بیماری کی شکار ماں کو لے کر پاکستان آنے والے 19 سالہ عبدالستار ایدھی کا خیال تھا کہ نئ آزاد مملکت سماجی فلاحی ریاست ہوگی- پاکستان پہنچ کر احساس ہوا کہ نعروں اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے- اپنی بیمار ماں کو کندھوں پر اٹھا کر اس نے کئ دروازے کھٹکھٹائے لیکن کہیں سے انسانیت کی خیرات نہ مل سکی- 1948ء میں اس کی ماں فوت ہو گئی ، تو اس نے خود کو انسانیت کےلئے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا- کیونکہ گھر سے ملنے والے دو پیسوں میں سے ایک پیسہ خیرات کرنے کا درس اسے ماں نے دیا تھا-
کراچی شہر میں ، 1948ء میں بحیثیت چھابڑی فروش دھندے کا آغاز کرنے والے عبدالستار ایدھی نے محض تین سال کے اندر اندر 1951ء میں ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ کیسے قائم کر لیا ؟ 5000 روپے سے قائم ہونے والا ادارہ 1.5 بلین سالانہ تک کیسے پہنچ گیا ؟- شاید ان سوالوں کا تسلّی بخش جواب کوئ شخص نہ دے سکے البتہ اللہ پاک کا یہ وعدہ سب کےلئے ہے کہ " جو شخص ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا اسے ضرور دیکھ لے گا"
ایدھی کی لگن اور عزم و ہمت کو دیکھتے ہوئے پاکستانی عوام نے اس پر عطیات کی بارش کر دی اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کی سب سے بڑی ویلفیئر فاؤنڈیشن بن گئ- اس نے میٹرنٹی وارڈز، مردہ خانے، یتیم خانے، شیلٹر ہومز اور بے شمار اولڈ ہومز بھی بنائے، جس کا مقصد ان لوگوں کی مدد کرنا تھا جو اپنی مدد آپ نہیں کرسکتے- فاؤنڈیشن کا سب سے ممتاز حصہ اس کی 1500 ایمبولینس ہیں جو ملک میں دہشت گردی کے حملوں کے دوران بھی غیر معمولی طریقے سے اپنا کام کرتی نظر آتی ہیں۔
مذہب سے بالا تر ہو کر انسانی اقدار کو فروغ دینے اور لوگوں کو بااختیار بنانے کے سفر میں ایدھی کو کئی انتہا پسند سوچ رکھنے والوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، جنہوں نے ان کے کام کو غیر اسلامی اور ایدھی صاحب کو کافر تک قرار دے دیا۔ لیکن ایدھی صاحب نے اپنی انتھک کوششوں اور محنت کے ساتھ اپنے دشمنوں کے دانت ہمیشہ کھٹّے کئے رکھے- اور انھیں اس کام میں اتنی عزت ملی کہ مسلح گروہ اور ڈاکو بھی ان کی ایمبولینس کو بخش دیا کرتے تھے۔
ایدھی فاؤنڈیشن ملک بھر میں 5700 لاوارث بچوں، بوڑھی اور مظلوم خواتین اور معذور افراد سمیت نشے کے عادی افراد کو بھی 17 پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے، جہاں تقریباً 3 ہزار کے قریب افراد ملازم ہیں، جن میں سے اکثر وہ ہیں، جو پہلے یہیں کے رہائشی تھے۔ اپنے کام کے آغاز میں ایدھی صاحب جب اپنی ایمبولینس میں شہر کا دورہ کرتے تو انہیں کثیر تعداد میں نومولود بچوں کی لاشیں ملتیں، جنہیں لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا، جس کے بعد اب اس ادارے نے ہر سینڑ کے باہر ایک جھولا لگا دیا ہے جس پر درج ہے " قتل نہ کریں، جھولے میں ڈال دیں"- پچھلی 4 دہائیوں میں کئی ہزار بچے، جن میں سے بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے، ایدھی سینٹر کے جھولے میں ڈالے گئے۔ بے شمار بیٹیاں جنہیں بچپن میں ان کے والدین نے اپنانے سے انکار کردیا تھا، آج وہ معتبر جامعات سے گریجویٹ ہیں۔
ایدھی کی موت یقیناً ایک مسیحا کی موت ہے- زندوں کی فکر کرنے والے نے 25 سال پہلے ایدھی ویلیج میں اپنی قبر کھدوا لی تھی- البتہ باعث اطیمان امر یہ ہے کہ تاریخ کے بدترین رومن اکھاڑے میں زندہ رہنے کے باوجود وہ کسی ٹارکٹ کلر یا خودکش بمبار کا لقمہ بننے سے بچ گیا ورنہ انسانیت تاحشر اس کا ماتم کرتی رہتی-
تاریخِ انسانیت کو اس مسیحا کی زندگی اور موت دونوں پر فخر ہے !!!!
No comments:
Post a Comment