Thursday, 14 December 2017

بدلہ

بدلہ

ہندوستان میں شیرشاہ نام کا ایک ایسا بادشاہ گزرا ہے جس کے احسانوں کو ہندوستان کے لوگ رہتی دنیا تک نہ بھولیں گے۔ وہ بڑا بہادر، نہایت سمجھدار، انصاف پسند اور منتظم بادشاہ ہوا ہے۔ اُس نے رعایا کی بھلائی کے لیے بڑے بڑے کام کیے اور ایسے قوانین بنا گیا کہ آج تک یہاں کی حکومت اُن سے فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ انصاف کرنے میں تو اس کا یہ حال تھا کہ اُس کے بیٹے بھی اُس سے کانپا کرتے تھے۔

ایک بار اُس کا بیٹا عاقل خاں ہاتھی پر سوار جارہا تھا۔ راستے میں ایک بنیے کا گھر پڑتا تھا۔ بنیے کے گھر کی دیواریں نیچی تھیں۔ بنیے کی بیوی اُس وقت نہا رہی تھی۔ شہزادے نے اُسے دیکھا تو شرارت سوجھی۔ اُس نے پان کی گلوری عورت پر پھینکی اور ہنستا ہوا چلا گیا۔ گلوری عورت پر گری تو اُس نے اوپر دیکھا۔ ہاتھی پر شہزادے کو دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ شرم کے مارے اُس نے چاہا کہ چھُری سے اپنا خاتمہ کرلے۔ بنیے نے روکا اور کہا گھبرانے کی بات نہیں میں بادشاہ کے پاس جاتا ہوں بادشاہ بڑا خداترس اور رعایاپرور ہے۔ انصاف کے معاملے میں وہ کسی کی رعایت نہیں کرتا۔ میں بھی اپنی بے عزتی کا بدلہ شہزادے سے لیتا ہوں۔

بیوی کو سمجھا بجھا کر بنیے نے بادشاہ سے فریاد کی۔ شہزادے پر مقدمہ ہوگیا۔ عدالت کے سامنے بنیے نے ساری کہانی سُنائی۔ شیرشاہ نے شہزادے کی طرف دیکھا اور ڈانٹ کر کہا کمبخت تو خدا کے غضب سے نہیں ڈرتا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ بنیا ہاتھی پر سوار ہو اور شہزادے کے محل کی طرف گزرے۔ شہزادے کی بیوی کو اس کے سامنے کیا جائے اور بنیا اُس پر پان کا بیڑا پھینکے۔

اب دربار میں ہل چل مچ گئی۔ بادشاہ کے امیروں، وزیروں نے بادشاہ کو بہت سمجھایا کہ یہ سزا مناسب نہیں۔ اگر شہزادے کو سزا دینی ہی ہے تو دوسری سزا دی جائے۔ لیکن شیرشاہ اپنے فیصلے پر اڑ گیا۔ اُس نے کسی کی ایک نہ سنی۔ جواب دیا کہ میری نظر میں راجا اور پرجا سب برابر ہیں۔ فیصلہ اب بدلا نہیں جاسکتا۔ بادشاہ کا یہ فیصلہ سُن کر بنیے کا یہ حال ہوا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔ ’’مائی باپ! بس میرا انصاف ہوگیا۔ میں اپنے دعوے سے ہاتھ اُٹھاتا ہوں۔‘‘

بنیے کی بات سُن کر بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ حکم دیا کہ اُسے خوش کردو۔ پھر اشرفیوں کی تھیلیاں اُسے دیں۔ امیروں، وزیروں نے بھی اپنے پاس سے انعام دیا۔ شہزادے نے معافی کا حال سُنا تو اُس نے بنیے کے پاس زیورات کی کشتی بھیجی۔

شکار کرنے چلے تھے

نواب حافظ رحمت خاں ہندوستان کے اُن نیک اور نامور حکمرانوں میں سے تھے جو اپنی بہادری اور انصاف پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔ نواب صاحب کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ اُن کی حکومت میں سارے کام خداترسی کے ساتھ شریعت کے مطابق ہوں۔ جن لوگوں نے نواب صاحب کی تاریخ لکھی ہے وہ سب گواہ ہیں کہ حافظ صاحب کے عہدِحکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔

ایک روز حافظ صاحب کے صاحبزادے حافظ محمدیارخان پبلی بصیت کے جنگل میں شکار کو گئے۔ جنگل کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں اور ہاتھی گھوڑوں کو تو گائوں میں چھوڑا۔ صرف محمدخاںخلجی کو ساتھ لیا۔ یہ سردار شکار میں بڑا ماہر تھا۔ ابھی جنگل میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ کچھ ہرن دکھائی دیے۔ ان کا پیچھا کیا۔ قریب پہنچے تو حافظ محمدیارخاں ایک جگہ گھات میں بیٹھے اور محمدخاںخلجی کو حکم دیا کہ ہرنوں کو گھیر کر سامنے لائو۔

محمدخاں خلجی چلا تو اُس وقت گائوں کا ایک شخص اُس طرف آنکلا۔ محمدخاں نے اُسے ہرنوں کی طرف جانے سے منع کیا لیکن وہ نہ مانا۔ آگے بڑھتا چلا گیا۔ اُس کے پائوں کی آہٹ پا کر ہرن بھاگ گئے اور آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ محمدخاں کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے گنوار کو گالی دی اور کہا ’’تجھ کو کیا ہوگیا تھا کہ تو نے میری بات نہیں سنی اور میرا شکار نکال دیا۔‘‘

گالی کے جواب میں گنوار نے بھی گالی دی اور بولا ’’میں تیرے واسطے اپنا راستہ کیوں چھوڑ دیتا؟‘‘ اس جواب پر محمدخاں نے اُس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ وہ طمانچہ کھا کر بھاگا اور اپنے سات آدمیوں کو بلالایا اور ان کی کمک پا کر محمدخاں کے سر پر لاٹھی دے ماری۔ محمدخاں فوجی سردار اور بڑا قوی آدمی تھا۔ زخم کھا کر اس سے لپٹ گیا اور دے پٹکا۔ اُسی وقت حافظ محمدیار خاں بھی آگئے۔ لڑائی کا یہ رنگ دیکھا تو چھری محمدخاں کے ہاتھ میں تھما دی۔ محمدخاں کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر دوسرے دیہاتی لاٹھیاں لے کر پل پڑے اور لڑنے لگے۔

یہ دونوں بہترین سپاہی تھے۔ سات آٹھ آدمیوں کو خاطر میں کیا لاتے۔ لیکن لاٹھیوں کی چوٹوں سے نہ بچ سکے۔ لڑ ہی رہے تھے کہ حافظ محمدخاں کے سوار اور پیادے اُن کو ڈھونڈتے ہوئے آگئے۔ گائوں والوں نے لشکری آدمیوں کو دیکھا تو سمجھے کہ یہ دونوں یا تو شہزادے ہیں یا بڑے آفیسر۔ اب وہ سر پر پائوں رکھ کر بھاگے۔ جنگل میں گھس کر اِدھر اُدھر چھپ گئے۔ حافظ محمدیارخاں نے اپنے آدمیوں کی مدد سے ان کو تلاش کرایا مگر ایک بھی ہاتھ نہ لگا۔ مجبور ہو کر ساتوں دیہاتیوں کی بیل گاڑیاں جو قریب ہی تھیں اور ایندھن سے لدھی تھیں۔
#امان_نوید

No comments:

Post a Comment

Tehzeeb ki lashh

Asalam o ealekum , Kuch din pehly hamari gerat kachray k dheer par pari mili thi or ab tehzeeb ki lashh ek car sy baramad hoi hay , Se...