Saturday, 16 December 2017

نروان کی آخری سرحد۔۔۔۔ ( آخری افسانہ )

نروان کی آخری سرحد۔۔۔۔ ( آخری افسانہ )
صدف اقبال
گیا ، بہار ۔۔انڈیا
بینر ۔۔۔۔۔عطا الرحمٰن
**********************
جیٹھ کے مہینے میں سوا نیزے پہ ایستادہ سورج آگ برسا رہا تھا ۔ لو کے ٹھپیڑے چلچلاتی گرم دوپہر میں بانس کے جنگلوں میں قہر برسا رہے تھے ۔ ایک پرسرار سی خاموشی چاروں طرف پھیلی تھی ۔جنگلی گل بوٹے پژمردگی کی آخری منزل پر دم توڑتے ہوئے اپنی ساری مہک کھو چکے تھے ۔ ہر سو ہو کا عالم تھا ۔ وہ سب اپنے اپنے جھونپڑوں میں پڑے اس پہاڑ جیسے دن کو کسی طور کاٹنے کی کوشش کر رہے تھے ۔
ملک کی سمندری سرحد کے قریب جنوب میں وا قع اس بستی میں ایک بیحد قدیم قبائلی قوم آباد تھی ۔ وہ بستی چھوٹے چھوٹے بانس کے بنے چند کچے جھونپڑوں پہ مشتمل تھی ۔ چاروں طرف بانس کا گھنا اندھیرا جنگل تھا ۔ جہاں مختلف اقسام کے جانوروں اور پرندوں کی کثرت تھی ۔وہ ان جانوروں کے بیچ رہنے کے عادی تھے ۔یوں کہیں کہ بانس کے جنگلوں کے درمیان وہ بستی ہزاروں سال سے قائم تھی ۔طویل القامت سانولے اور بھاری نقشوش کے حامل وہ لوگ کسی قدیم زمانے کے باسی محسوس ہوتے ۔انکا ذریعہ معاش بانس ہی تھا وہ بانس سے طرح طرح کی روز مرہ کے استعمال کی چیزیں بنانے میں ماہر تھے ۔وہ سب عمدہ کاریگر تھے انکی بنائی بانس کی چیزیں نہایت دیدہ زیب اور نفیس ہوتی تھیں ۔ بستی کے تین لوگ دوسرے قصبوں میں جاکر ان چیزوں کو بیچنے پہ معمور تھے ۔ جو رقم حاصل ہوتی اس رقم سے وہ تینوں ضرورت کی اشیاء لے آتے اور بستی میں تقسیم کر دیتے ۔
یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی تھی کہ ان تین لوگوں کے علاوہ دوسرے قصبے کوئی اور نہ دیکھ سکتا تھا ۔ اگر تین میں سے کوئی شخص لقمہ اجل بن جاتا تو کسی نئے فرد کو گاؤں کا سردار منتخب کرتا اور وہ پھر سے تین ہوجاتے ۔انکے ناموں کے ساتھ اعزازی طور پہ نند کا اضافہ کیا جاتا ۔ وہ تینوں میکھلا نند ، ونشی نند اور سہجا نند تھے ۔ وہ سب کے سب مردہ خور تھے ۔ انکے پروج بھی مردہ خور تھے ۔ انکی بھوک مردار مٹایا کرتے ۔جو متصل قصبوں والے بانس کے جنگلوں میں ایک مقرہ جگہ پر ڈال جاتے ۔جن میں کتے ، بلیاں ، بکریاں ، گیڈر ، ہاتھی ، گھوڑے ،اور پالتو پرندوں کی کچھ اقسام بھی شامل تھیں ۔زبان کی آشنائی گوشت کے علاوہ کسی دوسرے ذائقے سے نہ تھی ۔ اناج اور سبزیاں انکے نزدیک حرام تھیں ۔ وہ زندہ جانور کو مار کر اپنی خوراک بنانا مہا پاپ سمجھتے ۔ انکے نزدیک جیون ایک بیش قیمتی شئے تھاچاہے وہ جانور اور چرند پرند کا ہی کیوں نہ ہو ۔انہوں نے کبھی کھیتیاں نہیں کی تھیں ۔ وہ اناج اور سبزی کے ذائقے سے نا آشنا تھے ۔ان کا یہ یقین تھا کہ مردار کے علاوہ دوسری چیزیں کھانے سے گدھ دیوتا کا پرکوپ ان پہ نازل ہو سکتا ہے اور وہ آن کی آن میں تباہ ہو سکتے ہیں ۔ انکا دیوتا گدھ تھا ۔ بستی کے درمیان گدھ کی ایک بڑی سی مورتی نصب تھی ۔وہ اس کی پوجاکیا کرتے ۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے وہ اپنے گدھ دیوتا کونمسکار کرتے اسکے بعد معمول کے دوسرے کام کرتے ۔ ۔انسانوں اور انسانیت کو ان سے کوئی پریشانی نہ تھی ۔وہ بے ضرر تھے اور امن امان سے رہا کرتے۔دیوتا کا دوسرا روپ وہ اپنے سردار کو تسلیم کرتے ۔انکا سردار ایک بزرگ مگر قوی ہیکل اور جثے سے مضبوط شخص تھا ۔اسکی آنکھوں سے ذہانت متشرح تھی ۔وہ دور اندیش اور زیرک تھا ۔ ہر سردار کا ایک ہی نام رہتا ’’رودر پرتاپی مہاگھوش‘‘۔ بستی کے سب سے ذہین بچے کو دس سال کی عمر میں ہی اگلا سردار منتخب کر لیا جاتا ۔ اور اسکی تربیت سردار خود کرتا ۔اور ایک رودر پرتاپی مہاگھوش کے مرنے کے بعد سرداری کا تاج دوسرے رودر پرتاپی مہا گھوش کے سر پہ رکھ دیا جاتا ۔سردار کی جھونپڑی بستی کے مغربی چھو ر پہ سب سے نمایاں اور بڑی تھی ۔ جھونپڑی سے متصل بانس کا بنا ایک ہال نما بڑا سا چوکورکمرہ تھا جس میں ایک اونچا چبوترہ بنا تھا اس پرکھڑے ہوکرسردار انہیں وعظ دیا کرتا ۔

میلکھا نند اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ اس بار شہر گیا تو اسے یہ اندوہناک خبر ملی کہ اس ملک کا بادشاہ طویل علالت کے بعداس دارفانی سے کوچ کر چکا ہے ۔وہ ایک الگ تھلگ قبیلے کا فرد ہونے کے بعد بھی اس خبر کو سن کر مغموم ہو گیا ۔ اسنے اڑتی اڑتی یہ خبر بھی سنی تھی کہ جس نئے بادشاہ کو تخت سونپا جا رہا ہے وہ ایک ظالم و جابر بادشاہ ہے ۔پورا شہر اسے سہما ہوا محسوس ہوا ۔ ایک خوف کا احساس اسے لاشعوری طور پہ ہوا ۔ ونشی نند اور سہجا نند کے چہروں پہ بھی اسنے خوف کا عنصر دیکھا ۔ ان تینوں نے جلدی جلدی بانس کی بنی اشیاء بیچیں ۔ جو پیسے ملے ان سے ضروریات زندگی کے سامان کی خریداری کی اور واپسی کی راہ لی ۔وہ جب بھی شہر سے بانس کی تجارت کرکے واپس آتا تو اسے اپنی نوجوان بیوی ’’رج بالا کامنی ‘‘بستی کے باہر کچی سڑک کے کنارے نصب پتھر پہ بیٹھی ہوئی دور سے نظر آ جاتی ۔ وہ اپنے لمبے سفر کی تھکان کو بھول جاتا خچر سے اتر کر اپنے لباس پہ جمی گرد جھاڑتا اور والہانہ انداز میں اسے سینے سے لگا لیتا ۔ اس بار بھی رج بالا اسے دور سے ہی دکھائی دی ۔ وہ خچروں کو دیکھ کر زور زور سے اپنا ہاتھ فضا میں ہلانے لگی ۔ اسے دیکھ کر وہ بادشاہ کے مرنے کا غم بھول گیا اور نئے بادشاہ کا خوف بھی اسکے ذہن سے محو ہو گیا ۔
اس نے رج بالا کو کمر سے پکڑ کر اٹھایا اور خچر پہ بیٹھا دیا خود خچر کی رسی پکڑ کر پیدل چلتے ہوئے اس سے باتیں کرنے لگا ۔ رج بالا کے نقرئی قہقہے بانس کے گھنے جنگلوں سے ٹکرا کر مدھر سنگیت سا سماں پیدا کر رہے تھے ۔تھکا ہارا سورج سارا دن آسمان کے سفر کے بعد رات کی گود میں گرنے والا تھا ۔ ہر سو ملگجا سا اندھیرا چھانے لگا تھا ۔ جس وقت وہ جھونپڑے میں داخل ہوا سورج غروب ہو چکا تھا ۔رج بالا کامنی نے لپک کر مٹی کا دیا روشن کیا ۔ بانس کے جھونپڑے میں دیئے کی ملگجی سی روشنی پھیل گئی ۔
رات میں جب رج بالا کامنی تھک کر اسکے سینے سے لگی بے خبر سو رہی تھی تب اسے یاد آیا کہ شہر میں ہر چہرہ دہشت زدہ تھا اور وہ خود کو بھی خوف کے زیر اثر محسوس کرنے لگا تھا ۔اسنے خود کو سمجھانے کی کوشش کی کہ شہر کے حالات سے انہیں کیا لینا ان لوگوں کا تعلق تو شہر سے بس تجارت کی حد تک ہے ۔بادشاہ کوئی بھی ہو انہیں یا انکے قبیلے والوں کو اس سے کیا فرق پڑے گا ۔مگر جانے کیوں ایک خوف اسکے اندر پنجے گاڑ کر بیٹھ گیا تھا ۔
صبح جب وہ تینوں شہر سے خریدی گئی اشیاء سردار کے پاس پہنچانے گئے تو اس نے بادشاہ کی موت اور جابر بادشاہ کی تخت نشینی کی بات سردار کو بتائی ۔ سردار کے چہرے پہ تفکرات کے بادل چھا گئے ۔مگر کمال ہوشیاری سے اس نے اپنے چہرے پہ پھیلتے غبار کو چھپایا اور ان سے شہر کے حالات پوچھنے لگا ۔وہ بانس کاٹنے جنگل میں گیا تو رج بالا بھی اسکے ساتھ چلی آئی ۔ایک تیز دھار کلہاڑی کی مدد سے وہ بانس کاٹنے لگا رج بالا بانس کے گٹھر بنانے میں اسکی مدد کرنے لگی ۔وہ اپنی نسل کی خاص قد بت کی حامل عورت تھی ۔ دراز قد اور کسا ہوا جسم اسے سب سے ممتاز کیا کرتا ۔ سیاہ بالوں کا وہ مخصوص جوڑا بنائے رکھتی انہیں جنگلی پھولوں اور بانس کے تنکوں سے سجاتی ۔بھرے بھرے سینے پہ کپڑے کی ایک چوڑی پٹی باندھتی اور اپنے چوڑے کولہوں پر ایک لنگی باندھتی جس کی لمبائی گھٹنوں تک ہوتی ۔یہ انکا روایتی لباس تھا۔وہ بانس باندھتے وقت ہلکی آواز میں کچھ گنگنا رہی تھی ۔ہر سو خاموشی طاری تھی ۔بانس کے جنگل میں مور کی ’’ پی آؤں پی آؤں ‘‘کی صدا ایک خوبصورت ارتعاش پیدا کر رہی تھی ۔ہواؤں کی سرسراہٹ بھلی معلوم پڑتی تھی ۔رج بالا کامنی کی چوڑیوں کی کھنک ایک موسیقی کا سماں پیدا کر رہی تھی ۔اسنے اسکے ہاتھوں کی طرف دیکھا مہندی رچے ہاتھوں اور گول بھری بھری کلائیوں میں کانچ کی سرخ چوڑیاں بھلی لگ رہی تھی ۔ اسے زندگی اس پل بیحد حسین لگی ۔اس نے کلہاڑی ایک طرف رکھ کر رج بالا کے دونوں ہاتھ تھا م کر چوم لئے ۔ رج بالا کی ہنسی کی کھنکھناہٹ سے پوراجنگل گونج اٹھا ۔وہ اپنے حصے کا بانس کاٹ کر جنگل کے مغربی سمت کے اس مخصوص حصے کی طرف بڑھا ۔ جہاں آس پاس کے قصبے کے لوگ مردہ جانور ڈال جاتے تھے ۔ مردہ جانوروں کی کھال الگ کرکے مانس کے پارچے بنانے کا کام قبیلے کے تین مخصوص لوگوں کے ذمہ تھا ۔ جس طرح قصبے سے باہر جانے والے وہ تین تھے اسی طرح وہ بھی تین تھے ماس کے پارچے بنانے والے۔ان کے ناموں میں اعزازی طور پہ بھٹ لگایا جاتا ۔ وہ وان بھٹ ، مردلا بھٹ اور راگھو بھٹ تھے ۔اسے اپنے قریب آتا دیکھ کر وہ تینوں مسکرانے لگے ۔اس نے بانس کا گٹھر سر سے اتار کے زمین پر رکھا اور انکے قریب بیٹھ کر باتیں کرنے لگا ۔ رج بالا کامنی بانس کے گٹھر پہ چڑھ کر بیٹھ گئی ۔ شام کے سنہرے ملگجے اندھرے میں وہ اسے بالکل سنہری لگی ۔ بچپن میں دادی اسے ان جنگلوں میں رہنے والی مہربان پریوں کی کہانیاں سناتی تھیں ۔ اس وقت وہ اسے دادی کی کہانیوں والی پری محسوس ہوئی ۔ وہ مسکرانے لگا ۔مردلا بھٹ نے اسے ایک مردہ کتے کی اگلی دونوں ٹانگیں کاٹ کر دی۔ اسنے ماس اپنے کاندھے پر پڑے کپڑے میں باندھا اور رج بالا کامنی کے ساتھ واپسی کی راہ لی ۔وہ مردہ خور ضرور تھے مگر انکی بقیہ عادتیں عام انسانوں جیسی ہی تھیں ۔انکی شادی بیاہ کی اور دیگر کاموں کی رسوم عام روایتی طرزپر ہوتیں ۔ مرنے کے بعد وہ مردے کا داہ سنسکار کیا کرتے ۔ خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے وہ پورا قبیلہ ہی ایک خاندان کی طرح تھا ۔ وہ باہری دنیا سے قطع تعلق کے بعد بھی وہ ایک مربوط ڈھنگ سے اپنی زندگی گزار رہے تھے ۔
اس بار جب وہ تینوں شہر گئے تو اس بار شہر کا ماحول ہی بدلا ہوا تھا ۔بادشاہ نے گیروئے لباس کو قومی لباس قرار دے دیا تھا ۔سبھی کو گیروئے رنگ میں رنگنے کی تحریک زور شور سے چلائی جا رہی تھی ۔جو لوگ بھی مخالفت کرتے انہیں سر عام پھانسی پہ چڑھا دیا جاتا ۔ عوام بیحد ڈری ہوئی تھی ۔ایک خاص طبقہ جو بادشاہ کا مخالف تھا اس پہ وحشت اور بربریت کا بازار گرم تھا ۔ بادشاہ کے سپاہی ہاتھ میں ترشول لے کر ہر کسی کو دھمکاتے چل رہے تھے ۔ اور طاقت کے زور پہ بادشاہ کی وفاداری پہ عوام کو مجبور کر رہے تھے ۔ ملک کے بڑے بڑے تاجروں کا بادشاہ پہ بہت اثر تھا انکی تجوریاں روز یہ بہ روز بھرتی جا رہی تھیں ۔عوام غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے تھے ۔بادشاہ نے خواب دکھانے والوں کا ایک الگ سے دستہ بنا رکھا تھا جو پرجوش نوجوانوں کو خوبصورت خواب دکھا کر حکومت کے حق میں استعمال کر رہے تھے ۔وہ تینوں شہر کے حالات جان کر حیران رہ گئے ۔ جگہ جگہ انہوں نے جلے ہوئے مکانات اور دکانیں دیکھیں ۔ شہر میں ایک دہشت پھیلی ہوئی تھی ۔ انہوں نے جلدی جلدی اپنے سامان فروخت کئے اور ضروریات کی چیزیں خرید کر واپسی کی راہ لی۔ انہیں شہر سے واپس آئے تین چار روز ہی ہوئے تھے کہ بادشاہ کے گیروئے لباس میں ملبوس سپاہیوں کا ایک دستہ گھوڑے پر سوار ہاتھ میں تلوار اور ترشول لہراتا ہوا انکی بستی میں داخل ہوا ۔اور سیدھے سردار کے جھونپڑے کا رخ کیا۔ میلکھا نند کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں ایک خون جما دینے والاخوف سرایت ہوتا ہوا محسوس ہوا ۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ باہری دنیا کا کوئی شخص انکی بستی میں داخل ہوا ہو ۔اسے کسی انہونی کے ہونے کا احساس ہوا ۔ وہ عدم اطمینان کا شکار ہونے لگا ۔
ان کے جانے کے بعد سردار اپنے جھونپڑے سے نکلا ۔ اسکے ہاتھوں میں بادشاہ کا شاہی فرمان تھا ۔ سردار کی کمر میں چند لمحوں میں ہی خم پڑ چکا تھا اس نے ہاتھ کے اشارے سے میلکھا نند کو بستی کے لوگوں کو جمع کرکے چبوترے والے چوکورہال میں آنے کہا اور جھکے جھکے ہی وہ بھی اس ہال میں داخل ہو گیا ۔سردار نے ان سب کو بتایا کہ ملک کے نئے بادشاہ نے ایک نیا قانون بنایا ہے ۔ اس قانون کے تحت جانوروں کے گوشت کھانے پہ پابندی لگ گئی ہے ۔ خواہ وہ مردہ جانور کا گوشت ہی کیوں نہ ہو ۔بادشاہ خود سبزی خور ہے اور اپنی ساری عوام کو سبزی خور بنانا چاہتا ہے ۔ اور ان کے جنگل کا وہ علاقہ جہاں مردہ جانور وں کو ڈالا جاتا تھا اب بادشاہ کے سپاہیوں کے قبضے میں ہے ۔مردہ خوروں نے اگر بادشاہ کی حکم عدولی کی تو انہیں تختہ دار پہ چڑھا دیا جائے گا ۔ منجملہ صورتحال نے بستی والوں کو متفکر کر دیا ۔ انہوں نے کبھی اناج یا سبزی نہیں کھائی تھی ۔ وہ ان چیزوں کے ذائقے سے بھی انجان تھے ۔ گدھ دیوتا نے مردہ گوشت کے علاوہ کھانے کی ساری چیزیں ان پہ حرام کر رکھی تھیں ۔ حرام چیزوں کو کھاکر وہ مرنے کے بعد کاابدی عذاب نہیں خریدسکتے تھے ۔
بادشاہ کے سپاہی گرچہ ان کی بستی میں داخل نہ ہوتے تھے پر بستی سے باہر انکا سخت پہرہ تھا ۔وہ مردہ جانور کا گوشت حاصل نہیں کر سکتے تھے ۔ وہ سب فاقے میں مبتلا ہو گئے ۔ خالی ہانڈیاں دیکھ کر انکی مایوسی بڑھ جاتی بھوک کے عفریت نے انکا حال چند دنوں میں ہی بے حال کر دیا ۔کئی دن ہوئے بستی کی چہل پہل ختم ہو چکی تھی وہ سب اپنے اپنے جھونپڑے میں فاقے کی حالت میں گم سم نیم مردہ پڑے ہوئے تھے ۔جب بھوک زیادہ محسوس ہوتی تو اٹھ کر ایک کٹورا پانی پی لیتے اور پھر مردہ ہوکر زمین پہ گر جاتے ۔ انکی آنکھوں کے سامنے موت ہر وقت اپنے تیز دانت نکوسے ناچتی رہتی ۔ اس نے زمیں پر بچھی بانس کی چٹائی پہ رج بالا کامنی کا نڈھال وجود دیکھا تو اسکا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا ۔ خوبصورت چہرہ مرجھا چکا تھا ۔ مسلسل فاقے نے برا حال کر دیا تھا ۔ بھرے بھرے سینے اور کولہے سکڑ چکے تھے ۔ اسے یاد آیا کہ گئے برس ہی تو اس نے رج بالا کامنی سے شادی کی تھی اور گدھ دیوتا کے سامنے کھڑے ہو کر پوری زندگی اسے خوش رکھنے کی قسم کھائی تھی ۔مگر آج وہ مجبور تھا رج بالا کو دھیرے دھیرے موت کے قریب جاتا ہوا دیکھ رہا تھا مگر کچھ کر نہیں سکتا تھا ۔ اسکا کلیجہ کٹتا تھا اور آنکھیں خون بہاتی تھیں ۔
ترشول دھاری سپاہی گاؤں سے باہر مستعد تھے ۔ تھوڑی تھوڑی دیر پر اپنے بادشاہ کے نام کا نعرہ لگاتے ۔ یہ نام انکے لئے ہیبت کی علامت بن گیا تھا ۔ وہ سپاہیوں کا نعرہ سن کر سمٹ جاتے ۔ اکھیلا نند کو یاد آیا کہ کل ہی تو اپنے ننھے بچوں کی بھوک بستی کے ایک فرد ویگ دیو سے برداشت نہ ہوئی اور وہ چوری چھپے مردہ جانوروں کے استھان پہ پہنچ گیا ۔ مگر سپاہیوں کی نظر سے بچ نہ سکا اور مردہ بکری کا مانس کاٹتے ہوئے پکڑا گیا ۔سپاہی اسے بے دری سے کھنچتے ہوئے بستی میں لیکر آئے اور سر عام اسے پھانسی پہ چڑھا دیا ۔ ویگ دیو کی جورو کس قدر روئی۔تھی ۔ سپاہیوں کے ہاتھ پیر جوڑے تھے مگر انہوں نے ایک نہ سنی ۔ اسے لگا تھا یہ سپاہی اندھے بھی ہیں اور بہرے بھی ۔ انکی آنکھوں اور کانوں پہ انکے بادشاہ نے غلاف چڑھا رکھا ہے ۔ وہ اس رات سردار کے پاس تھا اور اسنے سردار کو پہلی بار ہچکیوں سے روتے سنا تھا اور پہلی بار اپنے سردار کو اسہائے اور بے بس محسوس کیا تھا ۔
ساون کا مہینہ چڑھ چکا تھا ۔اسکے نتھنوں نے مرے ہوئے جانوروں کی بدبو محسوس کی ۔ بارش کی جھڑی کئی دنوں سے مسلسل لگی ہوئی تھی ۔ چھپر سے پانی کی دھار گرنے کی آواز اسکے اندر ارتعاش پیدا کر رہی تھی ۔ ساون کا مہینہ چڑھتے ہی وہ لوگ تیوہار کی تیاریاں شروع کر دیتے تھے ۔ ساون کی پندرہ تاریخ کو وہ لوگ ساونی تیوہار مناتے تھے ۔ نئے کپڑے پہنتے ۔ بانس کے گھروں کو خوبصورت رنگوں سے رنگتے ۔عورتیں ہار سنگھار کیا کرتیں ۔ پھولوں کے زیور زیب تن کرتیں ۔ گوشت کو کئی طرح سے پکا کر گدھ دیوتا کو بھوج چڑھایا جاتا۔وہ سب رات بھر ناچتے گاتے خوشیاں مناتے ۔ مگر اس بار سب کچھ بدل چکا تھا ۔ ساون کی خوشیوں پہ بھوک بھاری پڑ گئی تھی ۔ اس کے دل میں بادشاہ اور اسکے سپاہیوں کے لئے نفرت کی ایک تیز لہر اٹھی ۔
اچانک کسی عورت رونے کی تیز آواز سنائی دی وہ اپنے ڈولتے وجود کو سنبھال کر باہر نکلا ۔ پاس کی چھونپڑی رج بالا کامنی کی سہیلی چیکا وتی کی تھی ۔ آواز وہیں سے آ رہی تھی ۔ بارش کی وجہ سے زمیں پہ جگہ جگہ کائی جم گئی تھی وہ پھسلتے پھسلتے بچا اور چیکا وتی کے جھونپڑے کی طرف بڑھا ۔ بستی کے دوسرے لوگ بھی اس جھونپڑے کی طرف جاتے دکھائی دیئے ۔ چیکا وتی کا دو سالہ بچہ بھوک کی تاب نہ لاکر مر چکا تھا اور وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی ۔ رج بالا کامنی بھی اپنی کمزور ٹانگوں پہ اپنے سوکھے ہوئے جسم کا بوجھ سہارتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے چلی آئی تھی ۔ اور چیکا وتی کو اپنے اکلوتے بچے کی لاش سے لپٹ کر روتے ہوئے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔ اس کا ایک ہاتھ اپنے پیٹ پہ تھا ۔ میکھلا نند کو یاد آیا پچھلے ماہ ہی تو رج بالا کامنی نے اپنے ماں بننے کی خوش خبری اسے سنائی تھی ۔ وہ کتنا خوش ہوا تھا یہ سن کر ۔ کیا اسکا بچہ اس دنیا میں آنے سے پہلے کی موت کی دیوی کا لقمہ بن جائے گا ۔ اسکے اندر کچھ ٹوٹنے لگا ۔
’’ ہم سب اس طرح بھوکے نہیں مر سکتے ۔ ہمارا سردار کوئی نہ کوئی اپائے کر ہی لے گا چلو سب سردار کے پاس چلتے ہیں ‘‘ اس نے مجمع سے مخاطب ہوکر کہا اور سردار کے جھونپڑے کی طرف بڑھ گیا ۔ وہ سب اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگے ۔ دستک پہ سردار نے کواڑ کھولا ۔ سردار بھی بیحد لاغر اور کمزور دکھائی دے رہا تھا اسکا ماس ہڈیوں میں سکڑ رہا تھا ۔ دھنسی آنکھیں اور گالوں کی ابھری ہوئی ہڈیاں سے ظاہر تھا کہ اس کا حال بھی ان سے مختلف نہیں وہ بھی کئی دنوں سے فاقے کی چادر اوڑھے بیٹھا ہے۔
اس کا چہرہ دیکھ کر کسی نے کوئی بات نہ کی مگر وہ اس آبادی کا ولی تھا اور دستک کی زبان سمجھتا تھا ۔وہ انکے ہمراہ اس چوکور کمرے میں پہنچا جہاں بستی کے اہم فیصلے لئے جاتے تھے ۔لوگوں نے قطاریں باندھ لیں اور بیٹھ گئے ۔ سردار نے ایک نظر انکے اترے ہوئے چہرے دیکھے اور اسٹیج نما اونچی جگہ پر چڑھ گیا ۔ایک امید جاگی کہ اب ہمارے مسئلے کا حل نکلنے والا ہے ۔ادھر چبوترے پر کھڑے فرد نے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح اپنا سر سینے پہ جھکا لیا ۔لوگ اسکی حالت دیکھ کر مزید پریشان ہوئے ۔قریب تھا کہ وہ سب اٹھ کر چل دیتے وہ کچھ بدبدانے لگا ۔اس نے سن رکھا تھا کہ پرانی کتابوں میں درج ہے کہ ایسے وقت میں آسمان سے کمک آتی ہے ۔ گدھ دیوتا پرم مہاشکتی کی اجازت سے زمین پر پدھارتے ہیں اور اپنے پجاریوں کے غموں کا مداوا کرتے ہیں ۔ پر گدھ دیوتا کہاں ہیں اس نے تو بند کمرے میں لگاتار گدھ دیوتا سے پراتھنا کی ہے ۔ اب تک تو اسے کوئی اشارہ مل جانا چاہیئے تھا ۔
سردار نے مجمے کی طرف دیکھا اور دعائیہ انداز میں ہاتھ اٹھا دیئے ۔چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچا ۔
’’ آسمان سے مدد کیوں آئے گی ۔ اب تو خدا بھی شاید گہری نیند سو رہا ہے ۔ اسنے تو مہاپاپیوں کو زمین کی باگ ڈور دے دی ہے ۔ اسوروں کا اس دھرتی پہ ورچسو قائم ہو گیا ہے ۔ کیا خدا ان اسوروں سے خوش ہے ‘‘۔اسے اپنا ذہن خالی ہوتا ہوا محسوس ہوا
ماتھے کا پسینہ پونچھ کر وہ چبوترے سے اترنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر دوبارہ آسمان کی طرف اٹھی اور وہ بے اختیار چلا اٹھا ۔
’’ آسمان والے کی مدد آ گئی ۔ وہ دیکھو گدھ ۔۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہماری بستی میں گدھ نظر آئے ہیں ۔‘‘اس کے چہرے پہ خوشی کی ایک لہر دوڑی ۔
’’ جی سردار ‘‘ ۔۔ سب نے بیک آواز کہا اور باہر دیکھنے لگے ۔گدھوں کا ایک غول جنگل کے اس حصے جہاں مردار جمع کئے جاتے تھے منڈلا رہا تھا ۔ چند گدھ درختوں پر بیٹھ کر اپنے بھیگے پنکھ پھڑپھڑا رہے تھے ۔ انکی چونچوں میں ماس کے ٹکڑے دبے تھے ۔
’’ گدھ آ گئے ہیں ۔ یہی ہمارے پروج ہیں ۔انکا احترام ہم پہ لازم ہے ۔‘‘ وہ سجدے میں گر گیا اسکے ساتھ ہی سارا گاؤں سر بسجود ہو گیا ۔
اسنے سجدے سے سر اٹھا کر طائرانہ نگاہ گاؤں والوں پہ ڈالی اور کھنکھار کر گلا صاف کیا ۔
’’ مجھے دیوتاؤں کی طرف سے اشارہ مل گیا ہے ۔ ہمیں ہستی اور نیستی کو مدغم کرنا ہوگا۔ہم سب ماضی پرست ہیں اور ہمیں اب ماضی کی طرف مراجعت کرنی ہوگی۔ اب ہم یہ بستی چھوڑ رہے ہیں ۔ ہم پورے ملک میں پھیل جائیں گے ۔ ان میں گھل مل جائیں گے ۔ بادشاہ نے جانور کھانے پہ پابندی لگائی ہے ۔ انسان کھانے پہ نہیں۔مگر اب ہم مردار نہیں زندہ گوشت کھایا کریں گے ۔ سنا ہے انسان کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔‘‘

No comments:

Post a Comment

Tehzeeb ki lashh

Asalam o ealekum , Kuch din pehly hamari gerat kachray k dheer par pari mili thi or ab tehzeeb ki lashh ek car sy baramad hoi hay , Se...