Friday, 15 December 2017

سکندراعظم کے وارثکڑلال

سکندراعظم کے وارث
کڑلال ۔
تعارف
قبیلہ کڑلال زیادہ ترہزارہ ڈویژن کے ضلع ابیٹ آباد ، ازار کشمیر میں راولکوٹ اور ہری پور کے کچھ علاقوں میں آباد ہیں ۔اس وقت ایک اندازے کے مطابق ہزارہ میں کڑلالوں کی آبادی 5 سے 6 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ضلع ابیٹ اباد میں یہ بیرن گلی سے شروع ہونے والے پہاڑی سلسلے پر اباد ہیں جو گاوں ڈبران پر جا کر ختم ہوتا ہے گاوں ڈبران ضلع ابیٹ اباد کا بھی اخری گاوں ہے اور کڑلالوں کا بھی ۔ اس کے بعد ضلع ہری پور شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ پہاڑی سلسلہ خانپور تک جاتا ہے مگر ڈبران کے بعد خانپور تک کوئی بھی کڑلال ابادی نہیں ہے
شجرہ نسب
کڑلال کلر شاہ کی اولاد ہیں کلر شاہ 1200 ائے ڈی میں افغانستان کے راستے ترکی سے دہلی ہندوستان ایا تھا ۔ کلر شاہ کے والد کا نام سلطان سوجان شاہ تھا جو ترکی کے بادشاہ تھے ۔ سلطان سوجان کے والد کا نام سلطان عبدالرحمان تھا ۔ قبیلہ کڑلال کا شجرہ نسب سلطان عبدالرحمان سے عبداللہ ہدامی اور پھر شاہجان رومی سے ہوتا ہوا سکندر اعظم سے جا ملتا ہے
سردار کا خطاب
کڑلال چیف کو سردار کاخطاب سلطان شمس الدین التمش نے دیا تھا ۔۔ دہلی سلطنت ( 1206-1296) کے عرصے میں کڑلال چیف اور قبیلہ کڑلال کو اپنے علاقے کی سرداری عطا کی گئ ۔ سردار کا مطلب فوجی چیف اور علاقے کا رہنما کے ہیں ۔ سلطان شمس الدین التمش کا اپنا تعلق بھی کشمیر قبائل لالاباری سے تھا اس لیے سلطان کڑلال چیف اور کڑلالوں کو اپنا فطری اتحادی سمجھتا تھا ۔ کڑلالوں نے اس انتہائی دشوار گزار اور پر اشوب علاقے کے تمام قبائل کو بہت عمدگی سے نہ صرف زیر کیا بلکہ تمام علاقے پر مکمل کنڑول کرکے پورے ریجن کی وفاداریوں کو سلطنت دہلی کی طرف پھیر دیا ۔۔
تاریخی پس منظر
حکومت برطانیہ کے گزٹ واجب الظہر 1847 کے مطابق قبیلہ کڑلال ہزارہ کا واحد قبیلہ ہے جس نے اپنی پوری تاریخ میں اپنی علاقائی اور قبائلی آزادی کو برقرار رکھا ۔ اور ہر انے والے جارح کے مقابلے میں اپنا بھرپور دفاع کیا ۔ مختلف ادوار میں پیش انے والے چند واقعات کا مختصر جاہزہ لیتے ہیں
مغل دور ۔
مغلیہ دور ہندوستان کا سنہری زمانہ ہے جس پر نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ٖفخر ہے ۔ کچھ علاقوں پر مغلوں نے براہ راست حکمرانی کی اور کچھ علاقوں پر اپنے اتحادی راجوں مہاراجو کے ذریعے سے کنٹرول کیا ۔ مغلوں کے دور میں ہزارہ میں گھکڑ نہ صرف مغلوں کے اتحادی تھے بلکہ مغلوں سے ان کی رشتہ داریاں بھی تھیں
مغلوں کے زمانے میں جب گھکڑوں نے لوہر ہزارہ میں اپنی عملداری قائم کرنے کی کوشش کی اور بہت سارے علاقے پر قبضہ کر لیا اس وقت بھی کڑلال اپنی علاقائی اور قبائلی ازادی کا تحفظ کرنے میں کامیاب رہے ۔اس وقت کے کڑلال چیف سردار قلی خان نے ایک معرکے میں گھکڑ چیف کو ہلاک کر کے اپنے علاقے کو گھکڑوں کے اثر سے محفوظ رکھا
ترک قرلوق ۔۔
تیمور ہندوستان پر حملے کے بعد جب واپس چلا گیا تو اس کے ساتھ ائے ہوئے ترک قرلوق قبائل نے ہزارہ میں اپنی حکومت قائم کر لی ۔ نہ صرف ہزارہ بلکہ پورے صوبہ سرحد پر ان کی حکومت تھی ۔ ترک قرلوق نے 1703 تک اس علاقے پر حکومت کی مگر وہ بھی کڑلال علاقے پر قبضہ نہ کر سکے اور اس قبیلے نے اس پورے دور میں اپنی ازادی کو برقرار رکھا
درانی دور
ترک قرلوق کی حکومت کے خاتمے کے بعد اٹھاریویں صدی سے لیکر انیسویں صدی کے ابتدائی عرصے تک افغان دورانیوں نے ہزارہ سمیت پورے صوبہ سرحد پر حکومت کی ۔ مگر دورانیوں کی طرف سے کڑلال علاقوں کے خلاف کسی قسم کی فوجی مہم جوئی نہیں کی گئ
سکھ دور
کڑلال تاریخ میں یہ دور بہت مشکل اور کھٹن تھا ۔ سکھوں کی طرف سے کڑلال علاقوں کو فتح کرنے کے لیے بار بار حملے کیے گے مگر کڑلال ہر حملے میں نہ صرف کامیاب ہوئے بکہ ہر بار سکھوں کو ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان بھی پہنچایا
انیوسیوٰیں صدی میں جب دورانیوں کی حکومت کمزور ہو گئ تو سکھوں نے ہزارہ کا کنڑرول سنبھال لیا سواے کڑلال علاقوں کے ۔۔ اور سکھوں کے پورے دور میں کڑلال علاقہ ان کے لیے ایک مشکل ہدف رہا ۔
کڑلال ہزارہ میں وہ واحد قبیلہ تھا جس نے شمالی ہند کی سب سے بڑی فوج کو بار بار شکست دی اور اپنی علاقائی اور قبائلی ازادی کا کامیاب دفاع کیا
کڑلال علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے 1822 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک بڑا لشکر تیار کرکے اپنے ایک نہایت ہی قابل اعتماد ساتھی اور ایک بہادر جنرل امر سنگھ مجاتھہ کی قیادت میں روانہ کیا ۔
کڑلالوں نے سردار حسن علی خان کی قیادت میں اس لشکر کا مقابلہ کیا اور اپنے سے کئ گنا زیادہ اور طاقتور فوج کو شرمناک شکست سے دوچار کیا ۔ اس لڑائی میں امرسنگھ مجاتھہ خود بھی سمندر کھٹہ کے مقام پر کڑلالوں کے ہاتھوں قتل ہوا ۔
لیف گریفن اس جنگ کا احوال لکھتے ہوے لکھتا ہے کہ سکھوں کی ایک بڑی اور طاقتور فوج کی وجہ سے سردار حسن علی خان کے ساتھی براہ راست اس کا مقابلہ کرنے سے گریزاں تھے مگر اس کے باوجود وہ بار بار اپنی پوزیشن تبدیل کرنے اور چھاپہ مار کاروائیاں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ۔اور اسی طرح کے ایک چھاپہ مار حملے میں سمندرکھٹہ کے مقام پر مشہور سکھ جنرل امر سنگھ مجاتھہ بھی قتل ہوا ۔
1822-1845 کے عرصے میں کڑلال علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے سکھوں نے بہت سارے حملے کیے مگر ہر بار کڑلال اپنے علاقے کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے اور انہوں نے بڑی بہادری اور بے جگری سے اپنے علاقے اور اپنی ازادی کا دفاع کیا
1844 میں لاہور دربار نے ایک بار پھر ایک بہت بڑی فوج اپنے دو بہت مشہور جنریلوں دیوان ملراج اور ہری سنگھ کی قیادت میں کڑلال علاقے کو فتح کرنے کے لیے بھیچی گو کہ سکھوں کی فوج اعدادی اعتبار سے بہت بڑی تھی مگر پھر بھی کڑلال اپنی ازادی اور علاقے کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے اور اپنے سے کئ گنا بڑی فوج کو نہ صرف شکست سے دوچار کیا بلکہ نہا کے مقام پر اس معرکے میں 150 سے زیادہ سکھ فوجیوں کو جن میں بہت سارے فوجی عہدار بھی شامل تھے جہنم رسید کیا
برطانیوی دور
1857 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان کے قبضے کے بعد کچھ عرصے تک کڑلال علاقوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت اور سرکشی رہی ۔ جنگ ازادی میں کڑلال قبیلے نے اپنی طاقت کے مطابق بھرپور حصہ لیا کڑلالوں نے ڈھنڈو(عباسیوں) کے ساتھ ملکر مری کی فوجی چھاونی پر ایک بھر پور حملہ کیا حملہ اتنا زبردست تھا کہ انگریزوں کو راولپنڈی سے مزید کمک منگوانی پڑی ۔ انگریزوں کا کافی جانی نقصان بھی ہوا ۔ اور اس حملے کی پاداش میں سردار حسن علی خان اس وقت کے کڑلال چیف کو انگریزوں نے جیل میں ڈال دیا اور اس کے بہت سارے ساتھیوں کو ڈھونڈ قبائل کے افراد کے ساتھ سزاموت دی ۔
پاکستان اور کڑلال
قبیلہ کڑلال کو ہزارہ میں یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلے قائد اعظم کی اواز پر لبیک کہا اور اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ قائد اعظم اور مسلم لیک کا ساتھ دیا ۔ کپٹن سردار زین محمد خان نے سب سے پہلے مسلم لیک میں شمولیت اختیار کی ۔ کپٹن سردار زین محمد خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ قائد اعظم کی طرف سے سردار عبدالرب نشتر کے ساتھ مسلم لیک کی ائرگنایزنگ کمیٹی کے ممبر مقرر کیے گے
1946 میں سردار زین محمد خان نے ہزارہ سے ایم ایل ائے کا الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے کانگریسی امیدوار کو شکست دیکر کامیاب ہوئے
کیپٹن سردار زین محمد خان اور قبیلہ کڑلال کویہ بھی اعزاز جاتا ہے کہ انگریزی سرکار کی طرف سے ملنے والے فوجی اعزازات اور خطابات قائد اعظم کے حکم پر واپس کر دیے ۔ جن میں کیپٹن سردار زین محمد خان کے سردار بہادرکا خطاب اور ۔او۔بی – ائی ۔ ارڈر اف برٹش انڈیا کے اعزازات بھی شامل تھے
1946 میں ہی ال انڈیا مسلم لیک کا اجلاس قائد اعظم کی صدارت میں دہلی میں ہوا۔ جس میں کپٹن سردار زین محمد خان نے پورے ہزارے کی نمائندگی کی ۔ اس تاریخی اجلاس میں ال انڈیا مسلم لیک نے تقسیم ہند اور پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا ۔ جس کے ایک سال بعد پاکستان معرض وجود میں آگیا ۔ پاکستان کے قیام سے جدوجہد اور تاریخ کا ایک سبق مکمل ہو گیا
تاریخ کا قلم اور وقت کی سوئی
مگر کیا پاکستان کے قیام سے وقت کی سوئی اور تاریخ کا قلم رک گے ۔ نہیں وقت کی سوئی اور تاریخ کا قلم کبھی رکتے نہیں
یہ چلتے رہتے ہیں اور ان میں بہت گہرا تعلق اور رشتہ بھی ہے ۔۔ چلتے ہوئے وقت کی سوئی ایک ایک لمحےکو اٹھا کر تاریخ کے قلم کے سپرد کر دیتی ہے اور تاریخ کا قلم ایک لحمہ کی تاخیر کیے بغیر اسے لکھتا رہتا ہے ۔۔ وہ ہز طرح کی تنقید اور مفادات سے بالاتر ہو کر ہز چیز کو لکھ کر انے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرتا چلا جاتا ہے ۔۔ قلم نے کل کو بھی لکھا ہے قلم اج کو بھی لکھ رہا ہے اور انے والے کل کو بھی لکھے گا
اج سے صدیوں بعد بھی جب کوئی تارٰیخ کا طالبعلم تاریخ ہزارہ کا مطالعہ کرے گا تو وہ ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہو جاے گا کہ ہم نے ہر قدم پر اپنا فرض ادا کیا ہے ۔۔ جنگ جاری ہے ۔۔ جنگ کا طریقہ اور انداز بدل گئے ہیں ۔ حقوق کی جنگ ۔۔ اپنی شناخت کی جنگ ۔۔ ہم نے ہر دور میں باہر کے حملہ اواروں کا مقابلہ کیا چائے وہ لاہور سے راجہ رنجیت سنگھ کے بھیجے ہوے جنرل امر سنگھ اور جنرل دیوان ملراج اور ہری سنگھ ہوں یا لایور کے جدید اور سیاسی فاتحین
پاکستان کے قیام کے بعد ایک سیاسی جدوجہد شروع ہوئی سیاست کے اس میدان میں ہز قوم اور قبیلے کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ ملک کی خدمت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قانون اور ائین کے داہرہ کار کے اندر اپنی ذاتی اور قبائلی شناخت کو بہتر طور پر سامنے لائے۔
قیام پاکستان کے بعد کپٹین سردار زین محمد خان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد قبیلہ کڑلال قیادت کے بحران سے دوچار ہوا۔ جب ایوب خان کا مارشل لگا تو سیاسی قیادت کو دبا کر رکھا گیا ۔۔ پورا ملک فوج اور ون مین شو بنا دیا گیا۔۔ بلدیاتی انتخابات کرے گےمگراس سسٹم نے لوگوں کو صرف مقامی طور پر سپورٹ کیا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک ذولفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے خلاف علم بغاوت نہ بلند کیا
کپیٹن سردار زین محمد خان کے فرزند سردار محمد اسلم جو پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے پاکستان پیپلز پارٹی میں شرکت اختیار کی ۔ ہری پور اور ابیٹ آباد میں بھٹو کے جلسے کرائے ۔ بھر پور بھٹو کا ساتھ دیا ۔ اور 1971 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو انہیں سینٹر بنا دیا گیا ۔۔ سردار محمد اسلم ایک قوم پرست راہنما تھے۔ پورے قبیلے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور اس وقت قبیلہ کڑلال کے راہنما سمجھے جاتے تھے ۔
1971 میں ہی سردار گل زمان خان گلیات کے حلقے سے خان عبدلقیوم خان کی مسلم لیک کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوے بعد میں جب قیوم خان نے بھٹو سے اتحاد کیا اور اس کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو سردار گلزمان خان صوبائی وزیر خاندانی منصوبہ بندی بھی رہے اسی عرصے مین ابیٹ آباد میں سردار ہاوس کی تعمیر بھی ہوئی اور ان کے زندگی میں سردار ہاوس قبیلہ کڑلال کی سرگرمیوں اور خدمات کا محور اور مرکز رہا ۔۔ بیرن گلی سے ڈبران تک تمام کڑلال سردار گل زمان خان کا نہایت عزت و احترام کرتے تھے ۔ اس طرح اپنی شناخت کا یہ سفر سردار محمد اسلم کے خاندان سے سردر گل زمان کی طرف منتقل ہو گیا ۔
ملک میں پھر ایکبار مارشل لا لگا ۔ جنرل ضیاءالحق نے اقتدار سمبھالا تو ساتھ ہی اسمبلیاں اور سینٹ بھی ختم ہو گے ۔۔
1980 کی مججلس شوری
1980 میں جب جنرل ضیاءالحق کو سیاستدانوں کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے مجلس شوری بنانے کا اعلان کیا پورے ملک کی طرح ہزارہ کے بھی سرکردہ اور سیاسی افراد اور خاندانوں نے مجلس شوری میں شامل ہونے کے لیے تگ و دو شروع کردی
اسی سلسلے میں صوبہ سرحد کے گورنر جنرل فضل الحق جو مطلق النیانی میں فرعون مصر کے ثانی سمجھے جاتے تھے انہیں موہری بڈبہن انے کو دعوت دی گئ ۔۔ جنرل صاحب تشریف لاے ۔ جنرل صاحب کے سپاسنامے میں ہزارہ میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ۔۔
جنرال صاحب نے اپنے صدارتی فرمان میں فرمایا کہ ۔۔ ہم نے ابیٹ اباد میں ایک میڈیکل کالچ کی منظوری دی ہے ۔ اس کے بعد اپ ایک یونیورسٹی کی بات کر رہے ہو۔۔ اپ کا صوبائی امدن میں حصہ ہی کیا ہے ۔ ہزارہ کا ضلع تو صوبہ سرحد پر ایک بوچھ ہے ۔ اپ تو ہم پر بوچھ بنے ہوئے ہو ۔
جنرل صاحب کے ان الفاظ پر سارا مجمع خاموش ہو گیا ۔۔ کس کی جرت تھی کہ فرعون کے سامنے کلمہ حق کہتا ۔۔۔
آخر ایک شخص اٹھا اور مائک اپنے ہاتھ میں لیکر جنرل صاحب سے مخاطب ہوا کہ
جرنیل صاحب جب اپ فوجی وردی پہن کر انگریز افسروں کو سلوٹ مار رہے تھے اور اپ کے بزرگ گاندھی کے ساتھ ملکر صوبہ سرحد جس کے اج اپ حکمران ہیں اسے ہندوستان میں شامل کرانے کے لیے کام کر رہے تھے تو مت بھولو کہ اس وقت ہزارہ ہی کے عوام اور ہمارے بزرگ تھے جنہوں نے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہا اور پاکستان کے پرچم کو تھاما ۔۔ اج اگر صوبہ سرحد ہندوستان میں ہوتا تو اپ کو کوئی فوج میں حوالدرا بھی بھرتی نہ کرتا ۔۔
جنرل فضل الحق ناراض ہو کر اس جلسے سے بغیر چاے پیے چلے گئے ۔ جب بات قومی غیرت اورشناخت کی ائی تو اس شخص نے اپنی مجس شوری میں شامل ہونے کوشش کی قربانی دی مگر اپنے ابا و اجداد کئ رسم کو باقی رکھا ۔۔ یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ اج کا بابا سردار حیدرزمان تھا ۔۔ اور جنرل فضل الحق کو موہری بڈبہن دعوت دینے والا بھی سردار حیدرزمان ہی تھا جب بات قومی وقار اور علاقے کی ائی تو اس نے مجسل شوری کی ممبری کی پرواہ نہ کی
فروری 1985 کے عام انتخابات
مزید آگیے چل کر صیاءالحق کو ملک میں پارلمانی الیکشن کروانے پڑے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی جیت کے خوف سے اس مجاہد نے غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا ۔ 28 فروری 1985 کو ملک میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے ، سردار حیدر زمان بھی صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب رہے ۔۔ اور بعد میں ان غیر جماعتی اسمبلیوں کو مسلم لیک جنجو میں تبدیل کر دیا گیا ۔۔ صوبائی حکومت بنی تو سردار حیدرزمان بھی صوبائی وزیر محنت و افرادی قوت کے عہدے پر فاہز رہے۔
نومبر 1988 کے عام انتخابات
بستی لال کمال کے حادثے نے ملک کی سیاست میں ایک نیی روح پھونکی ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا ۔ اور 16 نومبر 1988 کو پاکستان میں ایک بار پھر عام انتخابات کرائے گے ملک میں دو بڑے گروپ سامنے ائے ایک پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری مسلم لیک
بابا حیدر زمان نے ان انتخابات میں مسلم لیک کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا ۔ تمام ہزارے میں مسلم لیک ہی کامیاب ہوئی ۔ جبکہ پشتون علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی نے زیادہ نشستیں حاصل کیں ۔۔ گورنر سرحد جنرل فضل الحق اس وقت تک فوج سے سبکدوش ہو چکے تھے وہ بھی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر منتخب ہو کر ائے ۔۔ ڈسٹرکٹ کونسل ہال ابیٹ اباد میں مسلم لیک کا اجلاس بلایا گیا ۔۔ جو جنرل ٖفضل الحق کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں ہزارہ کے ایم پی ائے ایوب تناولی نے تجویز پیش کی کہ کیونکہ مسلم لیک کی زیادہ نشستیں ہزارہ سے ہیں اس لیے وزیراعلی بھی ہزارہ سے ہوگا
جنرل فضل الحق نے جواب دیا کہ وزیر اعلی وہ ہو گا جسے ہم چائیں گے۔۔ اجلاس میں ایک شخص نے جنرل صاحب سے فرمایا کہ جنرل صاحب اب مارشل لا کا دور ختم ہو چکا ۔۔ اب وہ ہو گا جو اکثریت چاے گی اور مسلم لیک میں ہم ہزارے وال اکثریت میں ہیں ، وزیر اعلی وہ ہو گا جسے ہم چاہئں گے۔۔
جنرل صاحب ایک بار پھر ناراض ہر کر چلے گئے ۔۔ جنرل صاحب کو یہ جواب دینے والے کا نام بتانا ضروری نہیں ہے کیونکہ ایسی ہمت ایک ہی ادمی کر سکتا تھا اور وہ تھا سردار حیدرزمان
بعد میں ہزارہ کے ارکان اسمبلی نے اپنا ایک گروب بنا کر پیپلز پارٹی کے افتاب احمد خان شیرپاو کا ساتھ دیا اور انہیں سرحد کا وزیر اعلی بنا دیا ۔۔
دوسری طرف مرکز میں پاکستان پلیپز پارٹی جیت گئ مگر پنجاب میں میاں نواز شریف نے جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا کر پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی اور خود پنجاب کے وزیر اعلی بن گئے ۔۔
اسی دوران نواز شریف نے کوشش کی کہ پنجاب کی طرح سرحد میں بھی مسلم لیک کی حکومت بنائی جاے ۔ میاں صاحب خود ایک رات کو کالے شیشوں والی گاڑی لیکر ابیٹ اباد تشریف لائے ۔ انہیں تلاش تھی سردار حیدرزمان کی کہ وہ انہیں خرید کر افتاب شیرپاو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا سکیں ۔۔
ابیٹ اباد میں انہیں بتایا گیا کہ سردار حیدرزمان نتھیاگلی گئے ہوئے ہیں ۔ میاں صاحب نتھیاگلی تشریف لے گئے اور سردار حیدر زمان سے ملنے کے بعد ان کے ساتھ اپنی گاڑی تک ائے اور گاڑی کی ڈھگی کھولتے ہوئے فرمایا کہ سردار صاحب یہ کچھ کیش میں ساتھ لایا ہوا۔۔ اپ یہ رکھ لیں اپ ہمارا ساتھ دیں اور بھی جو کچھ اپ چاہئں گے ہم اپ کو دیں گے ۔۔۔ سردار حیدر زمان نے ایک نہایت ہی تاریخی جملہ کہا ۔۔۔
جیسے سردار حسن علی خان کی قیادت میں سکھوں کے خلاف کڑلالوں کا نعرہ تھا کہ ہمارے پہاڑ ہمارے قلعے ہیں ۔۔ سردار حیدرزمان نے کہا کہ ۔۔ میاں جی یہ اپ اپنے پاس رکھیں اور پنجاب میں ڈھگے خریدنے کے کام ائیں گے ۔۔۔۔۔۔ اس زمانے میں یاد رہے کہ سردار حیدرزمان ضلع کونسل ابیٹ اباد کے چیرمین بھی تھے
1990کے عام انتخابات
میاں صاحب مایوس ہو کر چلے گئے۔ گھڑئ کی سوئیوں نے ایک بار پھر پلٹا کھایا ۔ 1990 میں ایک بار ملک میں بے نظیر حکومت کو ختم کر دیا گیا اور عام انتخابات کا اعلان کیا گیا ۔ 1990 کے انتخابات میں مسلم لیک کو جتیوا دیا گیا ۔ 1990 کے انتخابات میں سردار حیدر زمان اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں ناکام رہے ۔ اور منصف خان جدون نے یہ سیٹ جیت لی ۔
جب نواز شریف وزیراعظم پاکستان بن گے تو انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ ایک وزیراعظم نے ضعلع کونسل ابیٹ اباد کے کونسلروں کا ایک اجلاس اسلام اباد پرائم منسٹر ہاوس میں بلایا اور انہین ضلع ابیٹ اباد کے چیرمیں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لیے کہا ۔۔ کتنی چھوٹی سوچ تھی ایک وزیر اعظم کی پورے پاکستان کا وزیراعظم اپنے ایک مخالف کو ایک ضلع کے چیرمین کے عہدے پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے
سردار حیدرزمان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئ اور کامیاب ہوئی کسیے نہ ہوتی پشت پر پاکستان کا وزیر اعظم تھا ۔۔۔۔ مگر لاہور دربار سے ٹکر لینے کی رسم باقی رہی ۔۔۔ سردار حیدرزمان چند ووٹوں سے ہار گئے اور جاوید اقبال عباسی کو ضلعی چیرمین بنوا دیا گیا
جولائی ا1993 کے عام انتخابات
عوامی نیشنل پارٹی جس نے ہزارہ کے عوام سے 1946 کے استصواب رائے میں شکست کھائی تھی ابھی تک اپنے زخم چاٹ رہی تھی ۔ اس نے قیام پاکستان کے بعد سے ہی صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کا نعرہ لگایا ہوا تھا ۔۔ کبھی پختونستان اور کبھی پختون خواہ ۔۔ مگر کسی بھی حکومت میں انہیں کامیابی حاصل نہ ہوئ ۔۔ مگر اب شائد ان کا وقت تھا ۔۔ الیکشن میں صوبہ سرحد میں ائ این پی ایک بڑی پارٹی بنکرسامنے ائی اور صوبہ سرحد مین اپنی حکومت بنائی ۔
مرکز میں پاکستان پپیپلز پارٹی کی اتحادی ہونے کی وجہ سے انہوں نے صوبائی اسمبلی میں صونے کے نام کی تبدیلی کی قرارداد پیش کی ۔۔ مسلم لیک نواز نے بھی اپنی مصلحت کے تحت اس پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ مرکز اور سینٹ میں اسے اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا
صوبے کی تبدیلی کا مرحلہ ایا تو بابا سردار حیدرزمان نے پھر ایک بار یہ واضع کر دیا کہ ہزارے کے عوام کسی صورت اسے قبول نہیں کریں گے اور اگر ایسا کیا گیا تو ہم ایک بھر پور تحریک چلائیں گے اس بات کا اعلان بابا حیدرزمان سے اپنے ستوڑہ کے ایک جلسہ عام میں کیا
صوبائی اسمبلی ۔۔ قومی اسمبلی اور سینٹ سے قرارداد کے پاس ہونے کے بعد صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر دیا گیا ۔۔ ہزارے کے عوام سڑکوں پر نکل ائے اور ان کی قیادت کا شرف ایک بار پھر سردار حیدرزمان کو ملا ۔۔
12 اپریل 2010 کو ابیٹ اباد میں نہتے ہزارے والوں کو گولیوں سے بھون دیا ۔۔ سارا دن سردار حیدرزمان اپنے ساتھیوں کے ساتھ ابیٹ اباد کی گلیوں میں رہا اور چیخ چیخ کر قاتلوں کو کہتا رہا کہ اگر گولی مارنی ہے تو مجھے مارو ،،
مئئ 2013 کے عام انتخابات
تحریک صوبہ ہزارہ کو مفاد پرست اس وقت چھوڑ گئے جب بابا سردار حیدر زمان نے اس تحریک کو الیکشن کمشن کے پاس رجسٹرڈ کرایا ۔۔ کیونکہ اب ان لوگوں کا مفاد اس تحریک سے نہ تھا ۔۔ وہ جانتے تھے کہ تحریک صوبہ ہزارہ کے پلیٹ فارم سے الیکشن جیت کر بھی وہ وزیر یا مشیر نہیں بن سکتے ۔۔ ان کی ساری اہ و بکا اور یہ رونا دھونا مسند اقتدار تک پہنچنے کے لیے تھا ۔ تحریک ہزارہ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد کئ ایک نے وزارتیں لے لیں اور کئ ایک دوسری پارٹیوں میں اڑ گے کہ شائد مستقبل میں کوئی وزارت مل جاے
مگر بابا ایک چٹان کی طرح اپنے قدموں پر کھڑا ہے ۔۔ بابا ان تمام سے بہتر پوزیشن میں تھا وہ کسی بھی بڑی جماعت سے سودیبازی کر سکتا تھا مگر اس کی نظر وزارت یا کسی عہدے پر نہ تھی اس کے سامنے صوبہ ہزارہ بنانے ایک واضع مقصد تھا ۔۔
الیکشن ایک بار پھر انے والے ہیں۔۔ ہار جیت تو اللہ کی طرف سے ہے مگر ۔۔۔۔۔۔ ثابت قدمی کا ایک اپنا ہی اعزاز اور مزہ ہے ۔۔۔
ایک بات اٹل ہے کہ ہزارہ میں قبیلہ کڑلال کی اگر کوئی پیچان ہے تو وہ بابا سردار حیدززمان خان کی وجہ سے ہے
ہمیں فخر ہے کہ بابا نے اور کڑلال قبیلے نے صوبہ ہزارہ کی بنیادی اینٹ رکھ دی ہے ۔۔ کب صوبہ ہزارہ بنے گا ۔۔ مگر ایک بات طے ہے کہ جب بھی صوبہ ہزارہ بنے گا اس میں ہم کڑلالوں کے کردار کو تارٰیخ کبھی فراموش نہیں کر پاے گی ۔۔
بابا الیکشن جیتے یا ہارے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جس دلیری بہادری اور عظمت کے ساتھ اس نے اپنے قبیلے کا نام تارٰیخ میں لکھوا دیا ہے میں اس پر اسے سلام کرتا ہوں کہ جس طرح قیامت تک جو بھی سکھوں کی تاریخ پڑھے گا وہ سکھوں کے خلاف کڑلالوں کی کامیابیوں کو بھی پڑھے گا اسی طرح صوبہ ہزارہ جب بھی بنا اور جس نے بھی بنایا ہزارے کی اس کتاب میں کڑلال ایک سنہرے باب کے طور پر ہمیشہ رہیں گے ۔۔
مجھے فخر ہے کہ 1962 میں سیاست کا اغاز کرنے والے بابا حیدرزمان اج کروڑوں ہزارے والوں کے قائد ہیں ۔ ہزارے بھر میں سب سے زیادہ محترم اور قابل احترام سمچھے جاتے ہیں ۔۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی استینوں میں
مجھے ہے حکم آذان لاالہ الااللہ.

No comments:

Post a Comment

Tehzeeb ki lashh

Asalam o ealekum , Kuch din pehly hamari gerat kachray k dheer par pari mili thi or ab tehzeeb ki lashh ek car sy baramad hoi hay , Se...