ابا کا عشق
اقبال حسن خان
اسلام آباد ، پاکستان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اقبال حسن خان
اسلام آباد ، پاکستان
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ابا کا عشق
اماں جب بھی غصے میں ہوتیں تو ابا کو طعنہ دیا کرتی تھیں،
’’ہاں ہاں شکر ادا کرو خدا کا۔اُس سے تمہاری شادی ہو جاتی تو سال بھر بھی نہ چلتی۔یہ تو میں تھی جس نے تم جیسے کے ساتھ
گزار دی ساری زندگی۔اونہہ‘‘۔
اماں نے میرے ہوش سنبھالنے کے بعد ابا کے عشق کا قصہ اتنی مرتبہ دہرایا تھا اور ہر مرتبہ اس کا نقشہ یوں کھینچا تھا کہ ہم
تینوں بھائیوں کے ذہن میں جو کہانی بنی تھی وہ کچھ یوں تھی کہ ابا کالج کے دنوں میں عشق کرتے تھے۔لڑکی کا نام رضیہ
تھا اور یہ عشق خوب پھول پھل رہا تھا مگر بیچ میں اماں کے ابا نے جو ہمارے دادا کے کلاس فیلو تھے کچھ ایسی چالیں چلیں کہ
ابا کو رضیہ کے بجائے اماں سے شادی کرنا پڑی۔رضیہ بعد میں بہت لکھ پڑھ گئیں۔کہیں پروفیسر ہوگئیں۔پھر اس کہانی کا ایک حصہ کہتا تھا کہ ڈاکٹریٹ کرنے کسی بیرونی ملک بھی چلی گئیں اور اماں، اُنہیں یعنی ابا اور ’اُن‘ کے بچوں کو بھگتنے
لگیں وغیرہ۔
شاید ابا جوانی میں خوبصورت رہے ہوں گے مگر اب تو ہرگز نئیں تھے۔گنجے تھے،دو چشمے استعمال کرتے تھے، غسل خانے میں ہر
ہرروز صبح صبح زور زور سے کھنکھارتے تھے اور اُن کی توند خوب بڑھی ہوئی تھی۔یہ سب تھا مگر ہمارے ابا ہم تینوں کے دوست
تھے۔جب مسعود بھائی نے جو ہم میں سب سے بڑے تھے عشق کا ڈول ڈالا تو اُنہوں نے اماں سے نہیں، ابا سے بات کی
اور ابا یہ خبر سن کر اتنے خوش ہوئے مانو ان کی لاٹری نکل آئی ہو۔
،،ارے واہ۔کون لوگ ہیں؟ لڑکی تمہارے ساتھ پڑھتی ہے؟ناک نقشہ کیسا ہے؟اُس کے ابا کیا کرتے ہیں؟یار وہ بھی تمہیں چاہتی ہے یا یک طرفہ معاملہ چلا رہے ہو؟ وغیرہ۔
اماں کو ابا کی یہ گفتگو بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی تبھی تو اُنہوں نے تڑخ کر کہا تھا۔
،،میں صدقے جاؤں تمہارے۔لونڈوں کو خوب شہ دے رہے ہو اور کس معاملہ میں؟میں کہتی ہوں تم جیسے خود تھے جوانی میں
لڑکوں کو بھی اُسی رستے پہ چلا رہے ہو؟،،۔
ابا نے ہنس کر کہا تھا۔
’’یہ تم بڑی زیادتی کر رہی ہو۔وہ کسی کو پسند کر آیا ہے اور وہاں شادی کرنا چاہتا ہے۔میں نے اس پسند میں کوئی کردار ادا نہیں
کیا۔لڑکا جانے اور لڑکی۔ہاں البتہ میری یہ خواہش ضرور ہے کہ جہاں یہ چاہتا ہے، وہاں اِس کی شادی ہو جائے۔بس۔عدالت
میں جا کر شادی کر لی تو ہم ٹکر ٹکر دیکھتے رہ جائیں،،۔
اماں نے اس بات کا جو جواب دیا تو سمجھئے کہ اُنہوں نے ابا کی داستان عشق میں ایک ٹکڑا اور لگا دیا۔
’’ہاں ہاں۔کیوں نہیں کرے گا ایسا۔باپ بھی تو ایسا کرنے پہ تیار تھے اُس کلمونہی کے ساتھ،،۔
اُس وقت دونوں بھائی گھر پہ نہیں تھے۔میں اکیلا تھا۔میں یہ سُن کر ہکا بکا رہ گیا کہ ابا رضیہ سے عدالت میں جا کر شادی کرنے
پہ آمادہ ہو گئے۔قسم اللہ پاک کی ابا دیکھنے میں بالکل ایسے نہیں لگتے تھے۔لیکن یہ سچ تھا تبھی تو ابا نے سر جھکا کر پہلی مرتبہ
اعتراض نما اعتراف کیا اور میری موجودگی میں ایسی باتیں کرنے سے اماں کو روکا۔
’’ہاں ہاں شکر ادا کرو خدا کا۔اُس سے تمہاری شادی ہو جاتی تو سال بھر بھی نہ چلتی۔یہ تو میں تھی جس نے تم جیسے کے ساتھ
گزار دی ساری زندگی۔اونہہ‘‘۔
اماں نے میرے ہوش سنبھالنے کے بعد ابا کے عشق کا قصہ اتنی مرتبہ دہرایا تھا اور ہر مرتبہ اس کا نقشہ یوں کھینچا تھا کہ ہم
تینوں بھائیوں کے ذہن میں جو کہانی بنی تھی وہ کچھ یوں تھی کہ ابا کالج کے دنوں میں عشق کرتے تھے۔لڑکی کا نام رضیہ
تھا اور یہ عشق خوب پھول پھل رہا تھا مگر بیچ میں اماں کے ابا نے جو ہمارے دادا کے کلاس فیلو تھے کچھ ایسی چالیں چلیں کہ
ابا کو رضیہ کے بجائے اماں سے شادی کرنا پڑی۔رضیہ بعد میں بہت لکھ پڑھ گئیں۔کہیں پروفیسر ہوگئیں۔پھر اس کہانی کا ایک حصہ کہتا تھا کہ ڈاکٹریٹ کرنے کسی بیرونی ملک بھی چلی گئیں اور اماں، اُنہیں یعنی ابا اور ’اُن‘ کے بچوں کو بھگتنے
لگیں وغیرہ۔
شاید ابا جوانی میں خوبصورت رہے ہوں گے مگر اب تو ہرگز نئیں تھے۔گنجے تھے،دو چشمے استعمال کرتے تھے، غسل خانے میں ہر
ہرروز صبح صبح زور زور سے کھنکھارتے تھے اور اُن کی توند خوب بڑھی ہوئی تھی۔یہ سب تھا مگر ہمارے ابا ہم تینوں کے دوست
تھے۔جب مسعود بھائی نے جو ہم میں سب سے بڑے تھے عشق کا ڈول ڈالا تو اُنہوں نے اماں سے نہیں، ابا سے بات کی
اور ابا یہ خبر سن کر اتنے خوش ہوئے مانو ان کی لاٹری نکل آئی ہو۔
،،ارے واہ۔کون لوگ ہیں؟ لڑکی تمہارے ساتھ پڑھتی ہے؟ناک نقشہ کیسا ہے؟اُس کے ابا کیا کرتے ہیں؟یار وہ بھی تمہیں چاہتی ہے یا یک طرفہ معاملہ چلا رہے ہو؟ وغیرہ۔
اماں کو ابا کی یہ گفتگو بالکل بھی پسند نہیں آئی تھی تبھی تو اُنہوں نے تڑخ کر کہا تھا۔
،،میں صدقے جاؤں تمہارے۔لونڈوں کو خوب شہ دے رہے ہو اور کس معاملہ میں؟میں کہتی ہوں تم جیسے خود تھے جوانی میں
لڑکوں کو بھی اُسی رستے پہ چلا رہے ہو؟،،۔
ابا نے ہنس کر کہا تھا۔
’’یہ تم بڑی زیادتی کر رہی ہو۔وہ کسی کو پسند کر آیا ہے اور وہاں شادی کرنا چاہتا ہے۔میں نے اس پسند میں کوئی کردار ادا نہیں
کیا۔لڑکا جانے اور لڑکی۔ہاں البتہ میری یہ خواہش ضرور ہے کہ جہاں یہ چاہتا ہے، وہاں اِس کی شادی ہو جائے۔بس۔عدالت
میں جا کر شادی کر لی تو ہم ٹکر ٹکر دیکھتے رہ جائیں،،۔
اماں نے اس بات کا جو جواب دیا تو سمجھئے کہ اُنہوں نے ابا کی داستان عشق میں ایک ٹکڑا اور لگا دیا۔
’’ہاں ہاں۔کیوں نہیں کرے گا ایسا۔باپ بھی تو ایسا کرنے پہ تیار تھے اُس کلمونہی کے ساتھ،،۔
اُس وقت دونوں بھائی گھر پہ نہیں تھے۔میں اکیلا تھا۔میں یہ سُن کر ہکا بکا رہ گیا کہ ابا رضیہ سے عدالت میں جا کر شادی کرنے
پہ آمادہ ہو گئے۔قسم اللہ پاک کی ابا دیکھنے میں بالکل ایسے نہیں لگتے تھے۔لیکن یہ سچ تھا تبھی تو ابا نے سر جھکا کر پہلی مرتبہ
اعتراض نما اعتراف کیا اور میری موجودگی میں ایسی باتیں کرنے سے اماں کو روکا۔
،،کمال کرتی ہو رقیہ بیگم۔بچوں کا تو کچھ خیال کر لیا کرو‘‘۔
اماں بکتی جھکتی باورچی خانے میں چلی گئیں۔میں سمجھ گیا کہ ابا کو میرے سامنے یہ تذکرہ چھیڑنے سے تکلیف اور شاید شرمندگی
بھی ہوئی تھی تو میں بھی وہاں سے چپ چاپ کھسک لیا مگر یہ بات مجھے کئی دنوں تک تنگ کرتی رہی کہ ہمارے ابا عدالت
میں جا کر شادی کرنا چاہ رہے تھے۔ میں نے سارے معاملے کو شروع سے سوچا تو اماں کے مختلف وقتوں میں دئیے
گئے بیانات کی روشنی میں ابا کی گزشتہ زندگی عجیب سی لگی۔وہ رضیہ کو خطوط لکھتے تھے۔اُنہیں سنیما دکھانے لے جاتے تھے۔اُن
کے ساتھ باغوں میں گھومتے پھرتے تھے۔چوڑیوں کے تحائف بھیجتے تھے۔ایمان سے کم از کم اب ابا ایسے نہیں لگتے تھے۔
اماں بکتی جھکتی باورچی خانے میں چلی گئیں۔میں سمجھ گیا کہ ابا کو میرے سامنے یہ تذکرہ چھیڑنے سے تکلیف اور شاید شرمندگی
بھی ہوئی تھی تو میں بھی وہاں سے چپ چاپ کھسک لیا مگر یہ بات مجھے کئی دنوں تک تنگ کرتی رہی کہ ہمارے ابا عدالت
میں جا کر شادی کرنا چاہ رہے تھے۔ میں نے سارے معاملے کو شروع سے سوچا تو اماں کے مختلف وقتوں میں دئیے
گئے بیانات کی روشنی میں ابا کی گزشتہ زندگی عجیب سی لگی۔وہ رضیہ کو خطوط لکھتے تھے۔اُنہیں سنیما دکھانے لے جاتے تھے۔اُن
کے ساتھ باغوں میں گھومتے پھرتے تھے۔چوڑیوں کے تحائف بھیجتے تھے۔ایمان سے کم از کم اب ابا ایسے نہیں لگتے تھے۔
میں نے ابا کو عمر بھر ایک سچا اور نیک آدمی پایا تھا۔وہ وعدہ خلاف بھی ہرگز نہ تھے اور اس بات کا میں کتنے ہی موقعوں کا
گواہ بھی تھا۔مجھے یہ سوچ کر بڑی اُلجھن ہوتی تھی کہ اگر ابا نے رضیہ نامی کسی خاتون سے شادی کا وعدہ کیا تھا تو پھر
اُسے پورا کیوں نہ کیا اور ہماری اماں سے شادی کیوں کر لی؟یہ بات پوچھنے کی ابا سے جرات تھی نہ اماں سے۔بس جی ہی جی
میں سوچتا اور بہت سے ممکنہ حالات سوچا کرتا جن سے ابا یوں گزرے کہ رضیہ کے بجائے ہماری اماں سے شادی کر لی۔
گواہ بھی تھا۔مجھے یہ سوچ کر بڑی اُلجھن ہوتی تھی کہ اگر ابا نے رضیہ نامی کسی خاتون سے شادی کا وعدہ کیا تھا تو پھر
اُسے پورا کیوں نہ کیا اور ہماری اماں سے شادی کیوں کر لی؟یہ بات پوچھنے کی ابا سے جرات تھی نہ اماں سے۔بس جی ہی جی
میں سوچتا اور بہت سے ممکنہ حالات سوچا کرتا جن سے ابا یوں گزرے کہ رضیہ کے بجائے ہماری اماں سے شادی کر لی۔
میں ہاکی کھیل کر آیا تو گھر کے لان میں ابا سفید بالوں اور گہری سانولی رنگت والی کسی خاتون سے ہنس ہنس کر باتیں
کر رہے تھے۔اُس وقت میرا حلیہ ایسا نہ تھا کہ اُن کے قریب جاتا تو میں جلدی سے پورچ میں کھڑی کار کی آڑ لیتا
ہوا گھر کے اندر چلا گیا۔پکوڑوں کی بڑی اچھی خوشبو آ رہی تھی تو باورچی خانے کی طرف ہو لیا۔ہماری ملازمہ پکوڑے
تل رہی تھی۔اماں دوسرے چولہے پر کچھ اور تل رہی تھیں۔مجھے دیکھا تو زہر خند کے ساتھ بولیں۔
’’ملے نہیں اُن سے؟‘‘۔
میں بالکل بھی نہ سمجھا تو میں نے حیرت سے کہا۔
،،کس سے؟‘‘۔
ایک نظر ملازمہ کو دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کے باورچی خانے سے باہر لے گئیں اور نفرت سے بولیں۔
’’وہی آئی ہوئی ہیں۔تمہارے ابا کی دوست۔رضیہ بیگم۔اچانک ہی آ گئیں۔مجھے اس عورت کی صورت سے نفرت ہے‘‘۔
میں ہکا بکا رہ گیا۔اگر یہی رضیہ تھیں تو انتہائی معمولی شکل و صورت کی تھیں اور جوانی میں بھی اس قابل نہیں ہوں گی کہ اُن
سے عشق کیا جاتا۔مجھے ابا کے چناؤ پر افسوس ہوا۔میں ان خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اماں کی آواز سے چونک گیا۔
’’جب سے وہ آئی ہیں۔تمہارے ابا کا رنگ سرخ انار جیسا ہو رہا ہے خوشی کے مارے۔بات نہیں کر رہے سیدھے منہ۔اونہہ۔
میری بھی جوتی کو پروا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔
’’آپ نہیں ملیں اُن سے؟‘‘۔
تڑخ کر جواب دیا۔
،،میری ملتی ہے جوتی۔چنڈالنی ہے۔تمہارے ابا سے میرا نکاح ہو گیا تھا پھر بھی سنا تھا کہ اُن کے ساتھ سنیما دیکھنے جاتی تھی۔
میرا منہ مت کھلواؤ اور رمضان سے کہو کہ ناشتہ لان میں پہنچوا دے‘‘۔
اماں کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھ کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔مجھے پتہ نہیں ابا نے رضیہ سے اماں کے روئیے کے بارے میں
کیا کہا ہوگا۔مغرب کے بعد وہ چلی گئیں۔میں اماں کے کمرے میں گیا تو وہ الماری سے کپڑے نکال نکال کر بستر پر ڈھیر کر
رہی تھیں۔میں نے پوچھا تو وہ بولیں۔
’’میں یہ گھر چھوڑ رہی ہوں۔جارہی ہوں تمہارے ماموں کے گھر۔بس میرا کام اس گھر میں ختم ہو گیا‘‘۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔تبھی ابا دروازے پر دکھائی دئیے اور اپنے مخصوص مزاحیہ لہجے میں بولے۔
’’آخاہ۔ہمارے نصیب کہ تم نے بھی کہیں جانے کا نام لیا۔کہاں جا رہی ہو؟’’۔
اماں ابا کی بات کا جواب دینے کے بجائے بستر پر بیٹھیں اور سسکیوں سے رونے لگیں۔مجھے اُس وقت ابا بہت برے لگے۔جب
وہ جانتے تھے کہ اماں کو رضیہ کا آنا پسند نہیں تھا تو وہ اُن سے کیوں ملے؟ اگر وہ آ بھی گئی تھیں تو کوئی بہانہ کر دیتے۔ابا نے
اگلے ہی لمحے بات صاف کر دی۔
’’قسم اللہ پاک کی۔میں لان میں ٹہل رہا تھا وہ اچانک ہی آ گئی۔اب گھر آئے مہمان کو کوئی نکال تو نہیں سکتا نا اور پھر اتنی پرانی
پہچان تھی۔میں بالکل مجبور ہو گیا تھا رقیہ بیگم۔تمہاری جان کی قسم،،۔
اماں تڑپ کر اُٹھیں اور بولیں۔
‘‘جانتی ہوں۔سب جانتی ہوں۔اب بچے کے سامنے میر منہ مت کھلواؤ۔میری کیا حیثیت رہی اس گھر میں عمر بھر؟میں تو ملازمہ تھی۔تمہارے بچوں کی آیا اور بس۔بچے اب سمجھدار ہو گئے ہیں۔میری کیا ضرورت ہے۔اب تم کھل کے کھیلو‘‘۔
ہمارے ابا بڑے خوش مزاج تھے مگر اُس دن میں نے اُن کے چہرے پر گہرا ملال دیکھا۔مجھے لگا جیسے ابا کی ٹانگیں بے دم ہو
گئی ہوں کیونکہ جب وہ کرسی پر بیٹھے تو لگا جیسے مرضی سے نہ بیٹھے ہوں، بس گر گئے ہوں۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہاں
رکوں یا چلا جاؤں؟ جی چاہ رہا تھا کہ چلا جاؤں مگر اماں کی لال لال آنکھیں دیکھ کر جی نہ چاہا چنانچہ میں وہیں ڈٹا رہا۔ابا
نے دکھ بھری آواز میں کہا۔
’’رقیہ بیگم۔خدا کی قسم جس دن تم سے شادی کی بات ٹھہری تھی، اُس دن کے بعد آج پہلی دفعہ میری رضیہ سے ملاقات ہوئی
ہے۔میں تو اُسے بھول بھال بھی جاتا۔تم نے عمر بھر اُس کی یاد کو میرے دل میں زندہ رکھا۔کون سا موقع تھا جب تم نے اس
ذکر نہ کیا ہو؟کونسی گھڑی تھی جب تم نے مجھے اُس کی یاد نہ دلائی ہو؟کوئی ایسا دن تھا جب تم نے اُس کا نام نہ لیا ہو؟آج ایک
اتفاق تھا جو وہ یہاں آ گئی اور مجھ سے ملی۔تم اب بھی مجھ پہ شبہ کرتی ہو؟اور تم نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ میں تم سے محبت نہیں
کرتا؟رضیہ نے مجھے کیا دیا؟ چند خطوط جو میں نے اپنی اورتمہاری شادی سے پہلے ہی اُسے واپس کر دئیے تھے۔چند سنہری یادیں
جو شاید ہر نوجوان کے ساتھ عمر بھر رہتی ہیں۔مگر تم نے مجھے اتنا دیا کہ مجھ سے سنبھالے نہیں سنبھلتا۔یہ بچے، یہ گھر جو اگر تم نہ
ہوتیں تو میں کبھی تعمیر نہ کر پاتا۔تمہارے سگھڑاپے نے یہ گھر بنوا دیا۔بچوں کی اعلیٰ تعلیم بھی تمہاری ہی بدولت ممکن ہو سکی اور
ریٹائرمنٹ کے بعد یہ پر سکون زندگی بھی تمہاری ہی وجہ سے ہے۔میں تو قمیص میں بٹن تک نہیں ٹانک سکتا۔تمہاری گھر داری کی دنیا مثالیں دیتی ہے۔جس عورت نے مجھے اتنا کچھ دیا، اُس کو چھوڑ کر میں جوانی کی ایک چھوٹی سی دوستی کو کیسے اہمیت
کر رہے تھے۔اُس وقت میرا حلیہ ایسا نہ تھا کہ اُن کے قریب جاتا تو میں جلدی سے پورچ میں کھڑی کار کی آڑ لیتا
ہوا گھر کے اندر چلا گیا۔پکوڑوں کی بڑی اچھی خوشبو آ رہی تھی تو باورچی خانے کی طرف ہو لیا۔ہماری ملازمہ پکوڑے
تل رہی تھی۔اماں دوسرے چولہے پر کچھ اور تل رہی تھیں۔مجھے دیکھا تو زہر خند کے ساتھ بولیں۔
’’ملے نہیں اُن سے؟‘‘۔
میں بالکل بھی نہ سمجھا تو میں نے حیرت سے کہا۔
،،کس سے؟‘‘۔
ایک نظر ملازمہ کو دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کے باورچی خانے سے باہر لے گئیں اور نفرت سے بولیں۔
’’وہی آئی ہوئی ہیں۔تمہارے ابا کی دوست۔رضیہ بیگم۔اچانک ہی آ گئیں۔مجھے اس عورت کی صورت سے نفرت ہے‘‘۔
میں ہکا بکا رہ گیا۔اگر یہی رضیہ تھیں تو انتہائی معمولی شکل و صورت کی تھیں اور جوانی میں بھی اس قابل نہیں ہوں گی کہ اُن
سے عشق کیا جاتا۔مجھے ابا کے چناؤ پر افسوس ہوا۔میں ان خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اماں کی آواز سے چونک گیا۔
’’جب سے وہ آئی ہیں۔تمہارے ابا کا رنگ سرخ انار جیسا ہو رہا ہے خوشی کے مارے۔بات نہیں کر رہے سیدھے منہ۔اونہہ۔
میری بھی جوتی کو پروا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔
’’آپ نہیں ملیں اُن سے؟‘‘۔
تڑخ کر جواب دیا۔
،،میری ملتی ہے جوتی۔چنڈالنی ہے۔تمہارے ابا سے میرا نکاح ہو گیا تھا پھر بھی سنا تھا کہ اُن کے ساتھ سنیما دیکھنے جاتی تھی۔
میرا منہ مت کھلواؤ اور رمضان سے کہو کہ ناشتہ لان میں پہنچوا دے‘‘۔
اماں کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھ کے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔مجھے پتہ نہیں ابا نے رضیہ سے اماں کے روئیے کے بارے میں
کیا کہا ہوگا۔مغرب کے بعد وہ چلی گئیں۔میں اماں کے کمرے میں گیا تو وہ الماری سے کپڑے نکال نکال کر بستر پر ڈھیر کر
رہی تھیں۔میں نے پوچھا تو وہ بولیں۔
’’میں یہ گھر چھوڑ رہی ہوں۔جارہی ہوں تمہارے ماموں کے گھر۔بس میرا کام اس گھر میں ختم ہو گیا‘‘۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔تبھی ابا دروازے پر دکھائی دئیے اور اپنے مخصوص مزاحیہ لہجے میں بولے۔
’’آخاہ۔ہمارے نصیب کہ تم نے بھی کہیں جانے کا نام لیا۔کہاں جا رہی ہو؟’’۔
اماں ابا کی بات کا جواب دینے کے بجائے بستر پر بیٹھیں اور سسکیوں سے رونے لگیں۔مجھے اُس وقت ابا بہت برے لگے۔جب
وہ جانتے تھے کہ اماں کو رضیہ کا آنا پسند نہیں تھا تو وہ اُن سے کیوں ملے؟ اگر وہ آ بھی گئی تھیں تو کوئی بہانہ کر دیتے۔ابا نے
اگلے ہی لمحے بات صاف کر دی۔
’’قسم اللہ پاک کی۔میں لان میں ٹہل رہا تھا وہ اچانک ہی آ گئی۔اب گھر آئے مہمان کو کوئی نکال تو نہیں سکتا نا اور پھر اتنی پرانی
پہچان تھی۔میں بالکل مجبور ہو گیا تھا رقیہ بیگم۔تمہاری جان کی قسم،،۔
اماں تڑپ کر اُٹھیں اور بولیں۔
‘‘جانتی ہوں۔سب جانتی ہوں۔اب بچے کے سامنے میر منہ مت کھلواؤ۔میری کیا حیثیت رہی اس گھر میں عمر بھر؟میں تو ملازمہ تھی۔تمہارے بچوں کی آیا اور بس۔بچے اب سمجھدار ہو گئے ہیں۔میری کیا ضرورت ہے۔اب تم کھل کے کھیلو‘‘۔
ہمارے ابا بڑے خوش مزاج تھے مگر اُس دن میں نے اُن کے چہرے پر گہرا ملال دیکھا۔مجھے لگا جیسے ابا کی ٹانگیں بے دم ہو
گئی ہوں کیونکہ جب وہ کرسی پر بیٹھے تو لگا جیسے مرضی سے نہ بیٹھے ہوں، بس گر گئے ہوں۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہاں
رکوں یا چلا جاؤں؟ جی چاہ رہا تھا کہ چلا جاؤں مگر اماں کی لال لال آنکھیں دیکھ کر جی نہ چاہا چنانچہ میں وہیں ڈٹا رہا۔ابا
نے دکھ بھری آواز میں کہا۔
’’رقیہ بیگم۔خدا کی قسم جس دن تم سے شادی کی بات ٹھہری تھی، اُس دن کے بعد آج پہلی دفعہ میری رضیہ سے ملاقات ہوئی
ہے۔میں تو اُسے بھول بھال بھی جاتا۔تم نے عمر بھر اُس کی یاد کو میرے دل میں زندہ رکھا۔کون سا موقع تھا جب تم نے اس
ذکر نہ کیا ہو؟کونسی گھڑی تھی جب تم نے مجھے اُس کی یاد نہ دلائی ہو؟کوئی ایسا دن تھا جب تم نے اُس کا نام نہ لیا ہو؟آج ایک
اتفاق تھا جو وہ یہاں آ گئی اور مجھ سے ملی۔تم اب بھی مجھ پہ شبہ کرتی ہو؟اور تم نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ میں تم سے محبت نہیں
کرتا؟رضیہ نے مجھے کیا دیا؟ چند خطوط جو میں نے اپنی اورتمہاری شادی سے پہلے ہی اُسے واپس کر دئیے تھے۔چند سنہری یادیں
جو شاید ہر نوجوان کے ساتھ عمر بھر رہتی ہیں۔مگر تم نے مجھے اتنا دیا کہ مجھ سے سنبھالے نہیں سنبھلتا۔یہ بچے، یہ گھر جو اگر تم نہ
ہوتیں تو میں کبھی تعمیر نہ کر پاتا۔تمہارے سگھڑاپے نے یہ گھر بنوا دیا۔بچوں کی اعلیٰ تعلیم بھی تمہاری ہی بدولت ممکن ہو سکی اور
ریٹائرمنٹ کے بعد یہ پر سکون زندگی بھی تمہاری ہی وجہ سے ہے۔میں تو قمیص میں بٹن تک نہیں ٹانک سکتا۔تمہاری گھر داری کی دنیا مثالیں دیتی ہے۔جس عورت نے مجھے اتنا کچھ دیا، اُس کو چھوڑ کر میں جوانی کی ایک چھوٹی سی دوستی کو کیسے اہمیت
دے سکتا ہوں؟تم اپنے بھائی کے گھر جانا چاہتی ہو؟ہمیشہ کے لئے شاید۔چلی جاؤ۔میرے خیال میں تمہیں ایک ایسے شخص
کے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہئے جس کے لئے شبہ کے درخت کو تم نے اپنے دل کی زمین میں اتنی محنت سے پالا ہے‘‘۔
ابا سر جھکا کر بیٹھ گئے۔وہ اپنا مقدمہ پیش کر چکے تھے۔صفائی دے چکے تھے۔جتنا میں اماں کو جانتا تھا تو اُنہیں اس وقت
کوئی تلخ جواب دے کر اپنا اٹیچی اُٹھا کر کمرے سے فوراً نکل جانا چاہئے تھا مگر اُنہوں نے ابا کے بجائے مجھ سے مخاطب
ہو کر کہا۔
’’تو کھڑا ہوا کیا تماشہ دیکھ رہا ہے؟اور کوئی کام نہیں ہے تجھے۔نکل جا ہمارے کمرے سے‘‘۔
میں کان دبا کے کمرے سے نکل آیا۔دس پندرہ منٹ بعد جب میں لاؤنج میں بیٹھا ٹی وی دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا، میں نے
اماں اور ابا کا مشترکہ قہقہہ سنا۔وہ دونوں کسی بات پر ہنستے ہوئے سیڑھیاں اُتر رہے تھے۔میں نے اماں کو کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا تھا۔
کے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہئے جس کے لئے شبہ کے درخت کو تم نے اپنے دل کی زمین میں اتنی محنت سے پالا ہے‘‘۔
ابا سر جھکا کر بیٹھ گئے۔وہ اپنا مقدمہ پیش کر چکے تھے۔صفائی دے چکے تھے۔جتنا میں اماں کو جانتا تھا تو اُنہیں اس وقت
کوئی تلخ جواب دے کر اپنا اٹیچی اُٹھا کر کمرے سے فوراً نکل جانا چاہئے تھا مگر اُنہوں نے ابا کے بجائے مجھ سے مخاطب
ہو کر کہا۔
’’تو کھڑا ہوا کیا تماشہ دیکھ رہا ہے؟اور کوئی کام نہیں ہے تجھے۔نکل جا ہمارے کمرے سے‘‘۔
میں کان دبا کے کمرے سے نکل آیا۔دس پندرہ منٹ بعد جب میں لاؤنج میں بیٹھا ٹی وی دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا، میں نے
اماں اور ابا کا مشترکہ قہقہہ سنا۔وہ دونوں کسی بات پر ہنستے ہوئے سیڑھیاں اُتر رہے تھے۔میں نے اماں کو کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا تھا۔
No comments:
Post a Comment