اک سِتم اور میری جاں،ابھی جاں باقی ہے
اک سِتم اور میری جاں،ابھی جاں باقی ہے
دل میں اب تک تیری اُلفت کا نشاں باقی ہے
جُرمِ توہینِ محبت کی سزا دے مُجھ کو
کچھ تو محرومِ اُلفت کا سِلہ دے مُجھ کو
جسم سے روح کا رشتہ نہیں ٹوٹا ہے ابھی
ہاتھ سے صبرکا دامن نہیں چُھوٹا ہے ابھی
ابھی جلتے ہوئے خوابوں کا دُھواں باقی ہے
اک سِتم اور میری جاں،ابھی جاں باقی ہے
دل میں اب تک تیری اُلفت کا نشاں باقی ہے
اپنی نفرت سے میرے پیار کا دامن بھر دے
دل۔گستاخ کو محرومِ محبت کر دے
دیکھ ٹوٹا نہیں چاہت کا حسیں تاج محل
آ کہ بکھرے نہیں مہکی ہوئی یادوں کہ کنول
ابھی تقدیر کے گُلشن میں خزاں باقی ہے
اک سِتم اور میری جاں،ابھی جاں باقی ہے
دل میں اب تک تیری اُلفت کا نشاں باقی
No comments:
Post a Comment