آج دوپہر کی ہیڈلائنز میں جب میں نے یہ خبر سنی تو اتفاق سے میری تینوں بہنیں ساتھ ہی بیٹھی تھیں ۔
میری سب سےچھوٹی بہن خود کہنے لگی میں تو موبائل ہی نہیں لوں گی ۔کتنی لڑائیاں کرواتا ہے یہ۔
میں تو کتنی دیرتک بس یہی سوچتی رہی کہ اس ماں باپ پر کیا گزر رہی ہوگی جس کی ایک بیٹی قاتل دوسری مقتول ۔
جنہوں نےانہیں کتنے لاڈ سے پالا ان پر پابندیاں لگانے کے بجائے ہر جگہ آنے جانے کی اجازت دی موبائل لا کر دیا. اور بدلے میں بیٹیوں نے کیا دیا؟
کاش وہ سوچ لیتیں ہمارے لئے ہمارے بابا کس کس سےنہیں لڑتے ہماری ہر خواہش، کو منہ سے نکلتے پورا کرتے ہیں۔ ساری عمر ہمارے اسکول کالجوں یونیورسٹیز کی فیسیں بھر بھر کر بوڑھا ہو جاتےہیں خود ایک جوتی میں پورا سال گزار دیتے ہیں بابا ۔مگر اپنی بیٹیوں کو عیدکے چار جوڑے ہوں تو چاروں کے ساتھ چار جوتیوِں کی جوڑی دلاتے ہیں۔کیا اس دن کےلئے کیا ایک دن یہی جوتیاں ہم انکے منہ پر دے ماریں؟
کلاس نرسری سے اعلی تعلیم دلانے تک ۔۔۔میکے سے سسرال جانے تک ۔۔۔۔اپنے خون پسینے کی کمائی سے ایک باپ جتنا اپنی بیٹی کے لیے کر سکتا ہے کرتا ہے ۔بدلے میں کیا چاہتاہے؟ صرف اتنا کہ اسکی بیٹی اسکی عزت کا ہمیشہ خیال رکھے کبھی اسکا سر جھکنے نہیں دے۔
کیا اتنا حق بھی نہیں بنتا باپ کا کہ ایک بیٹی اسے عزت سے معاشرے میں جینے دے ۔
ماں جو نہ جانے کتنی راتیں جاگ کر اپنی بیٹی کو پالتی ہیں اس دن کے لیے کہ ایک دن وہ سارے زمانے میں رسوا کر جائے ۔ماں کی آہ سے عرش ہل جاتے ہیں اگر بد دعا دیدی تو کہاں پناہ ملے گی سنا، ہےماں ناراض ہو تو روح بھی نکلتے نلتےجسم میں اٹک جاتی ہے اور باپ ناراض ہو تو اللہ بھی ناراض ہوجاتا ہے۔
پھریہ نامحرم لوگ کیا جنت دلا دیں گے؟
والدین کی نافرمان اولاد کی تو نہ نماز قبول نہ دعا
پھر کس دروازے سےجا کر اللہ کو مناؤ گے؟
دو سال پہلے کی بات ہے میری ایک کولیگ تھی بہت ہی کم گو سب اسکی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے اور میں خود بھی۔
میری بات چیت اس سے کچھ بڑھی تو اس نے مجھے بتایا کہ اسکا ایک فرینڈ ہے اسکے لئے آج گفٹس لینے ملینیم جانا ہے۔
میں جانتی تھی اسکی سیلری مجھ سے کم تھی اور وہ پیسے بھی وہ اپنی کوچنگ فیس میں دے دیتی تھی جس کے بعد بہت کم ہی پیسے اسکے پاس بچتے تھے ۔
میں نے پوچھ لیا کہ گفٹس لینے کے لئے پیسے کہاں سے آئے؟
تو اس نے بتایا کل رات پاپا سے کہا کہ مجھے کچھ شاپنگ کرنی ہےپیسے چاہیے۔
تو ماما کہنے لگی کوئی ضرورت نہیں اتنے پیسے دینے کی ۔مگرپاپا مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں گھرمیں سب سے بڑی جو ہوں اور لاڈلی بھی ۔بس پھر پاپا نے فوراً 3 ہزار نکالے اور مجھے دے دیئے۔
میں نے تجسس سے اس سے پوچھا کہ کیا تم اسے پسند کرتی ہو شادی کرےگا وہ تم سے؟
تو اس نے جو جواب دیا وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
اس نےکہا شادی اور اس سے ۔۔وہ کرنا چاہتا ہےمگر میں نہیں ۔جھوٹ کیوں بولوں یار مجھے شکل و صورت اور پرسنیلیٹی بہت اٹریکٹ کرتی ہے پیسہ بھی ہو اس کے پاس تو خاص جاب بھی نہیں ہے۔
میں نے حیرت سے اسے دیکھا او ر پوچھا
تو تم گفٹس کیوں دےرہی ہو؟ میرا مطلب ہے جب پسند نہیں تو کیوں تعلق رکھا ہوا ہے؟
اس نے کہا وہ اکثر مجھے گفٹس دیتا ہے میں رات کے بارہ بجے بھی میسج کروں مجھے فلاں چیز کھانی ہے وہ دروازے میں رکھ کر چلا جاتا ہے اور گھر کی دیوار چھوٹی ہونےکی وجہ سے اوپر سے بھی چیز لے لیتی ہوں ۔
اب اتنا خیال کرتا ہے تو کیا میِں گفٹس، بھی نہ دوں۔
میں نےبے یقینی سے اس سے مزید جاننا چاہا
اور بولی کہ کیا تمھیں ڈر نہیں لگتا کوئی دیکھ لے تو؟
اس نے مسکرا کر کہا شروع شروع میں لگتا تھا اب تو عادت ہوگئی اب نہیں لگتا ۔
مجھے نہیں سمجھ آیا اس وقت میں اسے کیا کہتی میں بہت حیران تھی ۔
کل سرعام کا واقعہ جسمیں لڑکا لڑکی کو بلیک میل کرتا ہے اور آج یہ افسوس ناک واقعہ ۔
سرعام کی ٹیم نے بھی لڑکے کو سزا دے دی مگر حقیقت تو یہ ہےکہ لڑکی بھی کافی حد تک قصور وار تھی۔
اگرخدانخواستہ میری اس کولیگ کے فرینڈ کو علم ہوجاتا کہ وہ لڑکی ایسی سوچ رکھتی ہے تو وہ لڑکا بدلہ لینے کے لئے کچھ بھی کر سکتا تھا اور پھر ہمارا میڈیا لبررز سب کھڑے ہوجاتے صرف ایک کے خلاف۔۔
جبکہ خطا دونوں کی ہوتی ۔۔۔اللہ کی مقرر کردہ حدود کو مل کر توڑا، جاتا ہے عورت اگر خود کو بچانا چاہتی ہےتو بچ جاتی ہے چاہے لاکھ بھیڑیوں کا ہجوم ہو ۔
ہم لڑکیاں خود اپنے پیرپر کلہاڑی مار تی ہیں
پھر جب ہمیں لڑکے ذلیل کرتے ہیں تو ہم مظلوم بن جاتی ہیں ٹھیک ہے لڑکوں کو بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے مگر کیا ہم یہ بھی سوچیِں گے کہ ہمیں لڑکیوں کو کس قدر احتیاط کرنی ہے ؟
کیا ہم یہ سمجھیں گی کہ ہمارے کاندھوں پر ہمارے باپ بھائی کا عزت کا بوجھ اس سے کئیں ذیادہ ہے جتنا بوجھ اُنکے کاندھوں پر ہمارے جہیز، کا ہوتا ہے ۔
اس بوجھ کو کس نامحرم کے قدموِں میں روندنا ہے یا آنچل تلے ڈھانپ کر اسکی حفاظت کرنی ہے۔اسکا فیصلہ ہم نے کرنا ہوتا ہے
کچھ لڑکیاں کہتی ہیں ہم میچور ہیں ہمیں اچھا برا پتاہے ہم کبھی ایسی غلطی نہیں کرسکتی ۔
یہ سرارسر اپنے اوپر اندھا اعتبار ہے
سارا دن ناچ گانے فلمیں گپ شپ بناؤ سنگھار اور بچےکچے وقت میں من پسند دنیاوی کتاب پڑھ لینے کے بعد کیا ہم واقعی صرف اس وجہ سے محفوظ رہ سکتی ہیں کہ ہم میچور ہیں اور اپنااچھا برا خوب سمجھتی ہیں
ہرگز نہیں! نہ پانچ وقت کی نماز کی پابندی نہ روز، کی تلاوت قرآن تسبیح کو تو جیسےہم نے بڑھاپے کی لاٹھی سمجھ کر گھروں میں رکھا ہوتا ہے ۔نہ فرائض کی ادائیگی نہ سنتوں کاشعور۔ ہمارے تو خون میں شیطان دوڑتا ہے پھر بھلا کیسے اپنی میچورٹی کی بنا پر بچ سکتے ہیں ہمیں اللہ کے قریب رہنا ہے یہ نفس تبھی قابو آتا ہے ورنہ قدم قدم پر ابلیس بہکاتا ہے۔
میری سب سےچھوٹی بہن خود کہنے لگی میں تو موبائل ہی نہیں لوں گی ۔کتنی لڑائیاں کرواتا ہے یہ۔
میں تو کتنی دیرتک بس یہی سوچتی رہی کہ اس ماں باپ پر کیا گزر رہی ہوگی جس کی ایک بیٹی قاتل دوسری مقتول ۔
جنہوں نےانہیں کتنے لاڈ سے پالا ان پر پابندیاں لگانے کے بجائے ہر جگہ آنے جانے کی اجازت دی موبائل لا کر دیا. اور بدلے میں بیٹیوں نے کیا دیا؟
کاش وہ سوچ لیتیں ہمارے لئے ہمارے بابا کس کس سےنہیں لڑتے ہماری ہر خواہش، کو منہ سے نکلتے پورا کرتے ہیں۔ ساری عمر ہمارے اسکول کالجوں یونیورسٹیز کی فیسیں بھر بھر کر بوڑھا ہو جاتےہیں خود ایک جوتی میں پورا سال گزار دیتے ہیں بابا ۔مگر اپنی بیٹیوں کو عیدکے چار جوڑے ہوں تو چاروں کے ساتھ چار جوتیوِں کی جوڑی دلاتے ہیں۔کیا اس دن کےلئے کیا ایک دن یہی جوتیاں ہم انکے منہ پر دے ماریں؟
کلاس نرسری سے اعلی تعلیم دلانے تک ۔۔۔میکے سے سسرال جانے تک ۔۔۔۔اپنے خون پسینے کی کمائی سے ایک باپ جتنا اپنی بیٹی کے لیے کر سکتا ہے کرتا ہے ۔بدلے میں کیا چاہتاہے؟ صرف اتنا کہ اسکی بیٹی اسکی عزت کا ہمیشہ خیال رکھے کبھی اسکا سر جھکنے نہیں دے۔
کیا اتنا حق بھی نہیں بنتا باپ کا کہ ایک بیٹی اسے عزت سے معاشرے میں جینے دے ۔
ماں جو نہ جانے کتنی راتیں جاگ کر اپنی بیٹی کو پالتی ہیں اس دن کے لیے کہ ایک دن وہ سارے زمانے میں رسوا کر جائے ۔ماں کی آہ سے عرش ہل جاتے ہیں اگر بد دعا دیدی تو کہاں پناہ ملے گی سنا، ہےماں ناراض ہو تو روح بھی نکلتے نلتےجسم میں اٹک جاتی ہے اور باپ ناراض ہو تو اللہ بھی ناراض ہوجاتا ہے۔
پھریہ نامحرم لوگ کیا جنت دلا دیں گے؟
والدین کی نافرمان اولاد کی تو نہ نماز قبول نہ دعا
پھر کس دروازے سےجا کر اللہ کو مناؤ گے؟
دو سال پہلے کی بات ہے میری ایک کولیگ تھی بہت ہی کم گو سب اسکی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے اور میں خود بھی۔
میری بات چیت اس سے کچھ بڑھی تو اس نے مجھے بتایا کہ اسکا ایک فرینڈ ہے اسکے لئے آج گفٹس لینے ملینیم جانا ہے۔
میں جانتی تھی اسکی سیلری مجھ سے کم تھی اور وہ پیسے بھی وہ اپنی کوچنگ فیس میں دے دیتی تھی جس کے بعد بہت کم ہی پیسے اسکے پاس بچتے تھے ۔
میں نے پوچھ لیا کہ گفٹس لینے کے لئے پیسے کہاں سے آئے؟
تو اس نے بتایا کل رات پاپا سے کہا کہ مجھے کچھ شاپنگ کرنی ہےپیسے چاہیے۔
تو ماما کہنے لگی کوئی ضرورت نہیں اتنے پیسے دینے کی ۔مگرپاپا مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں گھرمیں سب سے بڑی جو ہوں اور لاڈلی بھی ۔بس پھر پاپا نے فوراً 3 ہزار نکالے اور مجھے دے دیئے۔
میں نے تجسس سے اس سے پوچھا کہ کیا تم اسے پسند کرتی ہو شادی کرےگا وہ تم سے؟
تو اس نے جو جواب دیا وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
اس نےکہا شادی اور اس سے ۔۔وہ کرنا چاہتا ہےمگر میں نہیں ۔جھوٹ کیوں بولوں یار مجھے شکل و صورت اور پرسنیلیٹی بہت اٹریکٹ کرتی ہے پیسہ بھی ہو اس کے پاس تو خاص جاب بھی نہیں ہے۔
میں نے حیرت سے اسے دیکھا او ر پوچھا
تو تم گفٹس کیوں دےرہی ہو؟ میرا مطلب ہے جب پسند نہیں تو کیوں تعلق رکھا ہوا ہے؟
اس نے کہا وہ اکثر مجھے گفٹس دیتا ہے میں رات کے بارہ بجے بھی میسج کروں مجھے فلاں چیز کھانی ہے وہ دروازے میں رکھ کر چلا جاتا ہے اور گھر کی دیوار چھوٹی ہونےکی وجہ سے اوپر سے بھی چیز لے لیتی ہوں ۔
اب اتنا خیال کرتا ہے تو کیا میِں گفٹس، بھی نہ دوں۔
میں نےبے یقینی سے اس سے مزید جاننا چاہا
اور بولی کہ کیا تمھیں ڈر نہیں لگتا کوئی دیکھ لے تو؟
اس نے مسکرا کر کہا شروع شروع میں لگتا تھا اب تو عادت ہوگئی اب نہیں لگتا ۔
مجھے نہیں سمجھ آیا اس وقت میں اسے کیا کہتی میں بہت حیران تھی ۔
کل سرعام کا واقعہ جسمیں لڑکا لڑکی کو بلیک میل کرتا ہے اور آج یہ افسوس ناک واقعہ ۔
سرعام کی ٹیم نے بھی لڑکے کو سزا دے دی مگر حقیقت تو یہ ہےکہ لڑکی بھی کافی حد تک قصور وار تھی۔
اگرخدانخواستہ میری اس کولیگ کے فرینڈ کو علم ہوجاتا کہ وہ لڑکی ایسی سوچ رکھتی ہے تو وہ لڑکا بدلہ لینے کے لئے کچھ بھی کر سکتا تھا اور پھر ہمارا میڈیا لبررز سب کھڑے ہوجاتے صرف ایک کے خلاف۔۔
جبکہ خطا دونوں کی ہوتی ۔۔۔اللہ کی مقرر کردہ حدود کو مل کر توڑا، جاتا ہے عورت اگر خود کو بچانا چاہتی ہےتو بچ جاتی ہے چاہے لاکھ بھیڑیوں کا ہجوم ہو ۔
ہم لڑکیاں خود اپنے پیرپر کلہاڑی مار تی ہیں
پھر جب ہمیں لڑکے ذلیل کرتے ہیں تو ہم مظلوم بن جاتی ہیں ٹھیک ہے لڑکوں کو بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے مگر کیا ہم یہ بھی سوچیِں گے کہ ہمیں لڑکیوں کو کس قدر احتیاط کرنی ہے ؟
کیا ہم یہ سمجھیں گی کہ ہمارے کاندھوں پر ہمارے باپ بھائی کا عزت کا بوجھ اس سے کئیں ذیادہ ہے جتنا بوجھ اُنکے کاندھوں پر ہمارے جہیز، کا ہوتا ہے ۔
اس بوجھ کو کس نامحرم کے قدموِں میں روندنا ہے یا آنچل تلے ڈھانپ کر اسکی حفاظت کرنی ہے۔اسکا فیصلہ ہم نے کرنا ہوتا ہے
کچھ لڑکیاں کہتی ہیں ہم میچور ہیں ہمیں اچھا برا پتاہے ہم کبھی ایسی غلطی نہیں کرسکتی ۔
یہ سرارسر اپنے اوپر اندھا اعتبار ہے
سارا دن ناچ گانے فلمیں گپ شپ بناؤ سنگھار اور بچےکچے وقت میں من پسند دنیاوی کتاب پڑھ لینے کے بعد کیا ہم واقعی صرف اس وجہ سے محفوظ رہ سکتی ہیں کہ ہم میچور ہیں اور اپنااچھا برا خوب سمجھتی ہیں
ہرگز نہیں! نہ پانچ وقت کی نماز کی پابندی نہ روز، کی تلاوت قرآن تسبیح کو تو جیسےہم نے بڑھاپے کی لاٹھی سمجھ کر گھروں میں رکھا ہوتا ہے ۔نہ فرائض کی ادائیگی نہ سنتوں کاشعور۔ ہمارے تو خون میں شیطان دوڑتا ہے پھر بھلا کیسے اپنی میچورٹی کی بنا پر بچ سکتے ہیں ہمیں اللہ کے قریب رہنا ہے یہ نفس تبھی قابو آتا ہے ورنہ قدم قدم پر ابلیس بہکاتا ہے۔
میری لڑکوں سےبھی ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ کچھ بھی ہو کسی لڑکی کی عزت کا ضرور خیال کریں ۔کل کو آپکی بھی بیٹی ہوگی اور یہ دنیا مکافات عمل ہے۔اگر کسی نے آپ کے ساتھ کوئی دھوکہ کیا ہے تو یقین جانئے سکون میں نہیں رہ سکتا وہ۔
اللہ بہت انصاف کرنے والاہے ۔
ماں باپ کو چاہیے کہ بچوں کو اتنی آزادی نہ دیں کہ انکی دنیا آخرت دونوں برباد ہوجائیں۔
اگر دین کی تعلیم نہیں ہوگی تو گناہ کےبعد بھی توبہ کا نہ طریقہ معلوم ہوگا نہ یہ پتا ہوگا کہ توبہ قبول ہوجاتی ہے کہ نہیں ۔کچھ بدنصیب اسی مایوسی میں اپنے آپ کو ختم کرلیتے ہیں کہ انکی توبہ قبول نہیں ہوگی جبکہ ایسا نہیں ہے اللہ تو بہت رحیم ہے سچے دل سے توبہ کرنے والے کو پاک و صاف کر دیتا ہے۔
اور لڑکیوں سے بھی گزارش ہے۔اندھا اعتبار مت کریں ۔آج کے دور میں ماں باپ اپنی اولادوں کو مار دیتے ہیں بہن بہن کو بھائی بھائی کو مار رہا ہے اور ہم کہتی ہیں
"نہیں یار وہ ایسا نہیں ہے
وہ الگ ہے وہ منفرد ہے "
ہم لڑکیاں بڑی نادان ہوتی ہیں بہت جلدی ہمارے جذبات کسی کی بھی باتوں کی لپیٹ میں آجاتے ہیں خود کو سیانی سمجھنے کے بجائے اس معاملے میں خود کو بے وقوف سمجھ کر اس سے دور رہنے کی کوشش کریں ۔
کہیِں ایسانہ ہو بہت دیر ہوجائے. آبرو کاآفتا ب کسی نامحرم کی وجہ سے ایک بار غروب ہو جائے تو پھر آپکی زندگی میں کتنا ہی اچھا اور چاند سا محرم کیوں نہ آجائے۔اندھیرا ہی رہتا ہے۔
اپنے آپکو اندھیرے سے بچائیِں. کیونکہ یہ اندھیرا آپکو ہی نہیں آپکے گھروالوں کو بھی لے ڈوبتا ہے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔
جزاک اللہ
اللہ بہت انصاف کرنے والاہے ۔
ماں باپ کو چاہیے کہ بچوں کو اتنی آزادی نہ دیں کہ انکی دنیا آخرت دونوں برباد ہوجائیں۔
اگر دین کی تعلیم نہیں ہوگی تو گناہ کےبعد بھی توبہ کا نہ طریقہ معلوم ہوگا نہ یہ پتا ہوگا کہ توبہ قبول ہوجاتی ہے کہ نہیں ۔کچھ بدنصیب اسی مایوسی میں اپنے آپ کو ختم کرلیتے ہیں کہ انکی توبہ قبول نہیں ہوگی جبکہ ایسا نہیں ہے اللہ تو بہت رحیم ہے سچے دل سے توبہ کرنے والے کو پاک و صاف کر دیتا ہے۔
اور لڑکیوں سے بھی گزارش ہے۔اندھا اعتبار مت کریں ۔آج کے دور میں ماں باپ اپنی اولادوں کو مار دیتے ہیں بہن بہن کو بھائی بھائی کو مار رہا ہے اور ہم کہتی ہیں
"نہیں یار وہ ایسا نہیں ہے
وہ الگ ہے وہ منفرد ہے "
ہم لڑکیاں بڑی نادان ہوتی ہیں بہت جلدی ہمارے جذبات کسی کی بھی باتوں کی لپیٹ میں آجاتے ہیں خود کو سیانی سمجھنے کے بجائے اس معاملے میں خود کو بے وقوف سمجھ کر اس سے دور رہنے کی کوشش کریں ۔
کہیِں ایسانہ ہو بہت دیر ہوجائے. آبرو کاآفتا ب کسی نامحرم کی وجہ سے ایک بار غروب ہو جائے تو پھر آپکی زندگی میں کتنا ہی اچھا اور چاند سا محرم کیوں نہ آجائے۔اندھیرا ہی رہتا ہے۔
اپنے آپکو اندھیرے سے بچائیِں. کیونکہ یہ اندھیرا آپکو ہی نہیں آپکے گھروالوں کو بھی لے ڈوبتا ہے۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔
جزاک اللہ
No comments:
Post a Comment