تحریر ۔ اسماء حسن
ہانگ کانگ
..........................
(1) بی بی
سنا ہے جب ماہرانی جی کو بیاہ کر لاگیا تھا تو ان کے ابا نے بیٹی سونا چاندی میں تول دی،اور ایسا سازو سامان دے کر رخصت کیا تھا کہ مارے حیرت کے لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لی تھیں۔آس پاس کےگاؤں سےعورتیں ماہرانی کو دیکھنے آتیں تو اس کے حسن کے ساتھ ساتھ جہیز دیکھ کر بھی حیران رہ جاتیں۔
جس کے سنگ اس کا بیاہ رچایا گیا تھا وہ بھی کچھ کم نہ تھا۔ ضلع بھر کا مشہور سوداگرانِ چرم ، جس کی باتیں راست اور طبیعت حلیم تھی، اور اسی وجہ سے دور دور تک اُس کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ محمد بخش نے زندگی کی ساری آسائشیں نئی نویلی دلہن کے قدموں میں ڈھیر کر دیں اوراس کے حسن کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے تھے۔ وہ تھا تو سخی ہی، کوئی کہہ بیٹھا کہ واقعی سخی ہے تو غریبوں کے لیے لنگر کیوں نہیں کھول دیتا؟ اُسے بات پسند آگئی۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ایسا لنگر کھلا کہ گلی محلے کی نالیوں میں بھی دیسی گھی جما رہتا۔ اِردگرد کے گاؤں سے لوگ آتے اور برتن بھر بھر لنگر لے جاتے۔
کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا، جب کبھی محمد بخش موج میں ہوتا تو اپنے بیٹوں کو گود میں اٹھا کر ماہرانی سے کہا کرتا:
"اگر میں زندہ نہ رہوں اور تم سے کوئی پوچھے کہ تم کس کی بیوی ہو؟ تو فخر سے سینہ تان کر کہنا کہ میں اُس لنگر والےکی بیوی ہوں جس کا نام محمد بخش تھا۔۔"
یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک ہوا کرتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی اور ایک شخص صف میں کھڑی عورتوں کو باری باری بلاتا اور ان کا نام پتہ پوچھتا۔ مال لیتا اور کچھ روپے دے دیتا۔۔۔۔
اُس کی باری آئی تو اس شخص نے کہا:
" اپنا نام بولو!"
روہانسی آواز لیے بڑی مشکل سے بولی ۔
" ماہ ۔۔۔۔۔ ماہرانی!!!"
اُس نے ایک نظر ماہرانی دیکھی۔
’’کس کی ماہرانی؟‘‘
’’اسی لنگر کھولنے والے کی بیوی ہوں جس کا نام محمد بخش تھا "
" چل" بی بی " یہ کیا پہیلیاں ڈال رہی ہے۔ لگتا ہے بٹوارے نے تجھے پہچان ہی بھلا ڈالی ہے ۔ صحیح نام بتا اور کتنا سُوت کاتا ہے یہاں رکھ دے اور پیسے لےجا "۔
اس کے منہ سے بے اختیارصرف اتنا ہی نکل سکا
" بی بی سُوت کاتنے والی ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2) بند دریچے
بھٹے پر کام کرتے ہوئے اس کےچھوٹے چھوٹے ہاتھ زخموں سے چور ہو جایا کرتے تھے۔ دس سال کی عمر میں وہ ایسی جان توڑ محنت کرتا کہ سامنے کھڑا اُستاد بھی دنگ رہ جاتا تھا۔ آج اُستاد نے اس کے کام سے خوش ہو کر اسے ایک آنہ اضافی دیا اور کہا کہ" بابر پتر! تو نے آج میرا دل جیت لیا ہے۔ میری بات یاد رکھ! ایسے ہی محنت کرتا رہا تو ایک دن ضرور ترقی کرے گا اور اتنا آگے جائے گا جس کے لوگ خواب دیکھتے ہیں۔
اُسے تو خوشی اِس بات کی تھی کہ آج اُسے دو نہیں، تین آنے ملے تھے۔ تین آنے ہاتھ میں تھامے ننگے پاؤں دوڑتا ہوا گھر پہنچا اور پھولی سانس لیے کہنے لگا :
لے ابا آج کی مزدوری دو آنے۔ اچھا اب بتا، میری دوسری مٹھی میں کیا ہے؟" ابا کبھی کچھ کہتا تو کبھی کوئی اور نام لیتا، تو وہ جھنجھلا کر کہنے لگا ": اچھا تو رہنے دے۔ یہ دیکھ! استاد نے مجھے ایک آنہ انعام دیا ہے، اور تجھے پتا ہے وہ کہہ رہا تھا کہ تو ضرور ترقی کرے گا اور بہت آگے جائے گا۔ ابّا تو دیکھنا، میں اپنے ساتھ تجھے بھی بہت آگے لے جائوں گا، پھر تُو کوئی کام مت کرنا، بس تھڑے پہ بیٹھ کر حقہ پیا کرنا"۔ ابا اُس کی معصوم باتوں پر مسکر ادیتا اور کہتا: "ہاں تو میرا ببر شیر پُتر ہے ببر شیر"۔
کبھی اینٹ کے بھٹوں پر کام کرتے ہوئے تو کبھی گلی گلی ہلدی اور مرچ مصالحے بیچ کر وہ خوابوں کی جمع پونجی سنبھال کر رکھنے لگا۔ بدن پر ایک پھٹا پرانا سویٹر اور پاؤں میں ٹوٹی چپل پہنے ’’گرم انڈے‘‘ کی صدائیں لگاتے لگاتے اس کے ہونٹ سردی سے کپکپانے لگتے۔ در در ٹھوکریں کھاتا رہا اور خوابوں کو ریزہ ریزہ ہونے سے بچاتا رہا۔ ایک بار مستری کے ساتھ کام پر تھا کہ اُس پر دیوار آن گری، مگر وہ رِستے خون کی پرواہ کیے بغیر دوڑتا رہا کام کرتا رہا کہ اگر اسے مزدوری نہ ملی تو گھر کی ہانڈی کیسے پکے گی؟ وقت گزرتا گیا، پھر اس نے بند پوٹلی کھول کر ایک ایک خواب سجانا شروع کیا، اپنی نسل کو پروان چڑھاتا چلا گیا۔۔۔ اُنہیں ایسا مستقبل دیا کہ لوگ اُس کی مثالیں دینے لگے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم لوگوں کو اس مقام تک پہنچانے کے لیے میں نے بڑے پاپڑ بیلے ہیں محمد ثاقب۔۔۔!!! میری ہڈیاں گل گئی تھیں مگر میں نے ہار نہیں مانی۔۔۔ اللہ بخشے، تمہارے دادا کہا کرتے تھے کہ تو ببر۔۔۔۔
"اہ ہ ہوں۔۔۔ ابو مصیبت تو یہ ہے کہ اگر دو گھڑی آپ کے پاس بیٹھ جائیں توآپ ہمیشہ یہی پرانے قصے سناتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ تو سارے والدین کرتے ہیں۔۔ کوئی احسان تو نہیں کرتے، یہ ان کا فرض ہے، ابو! ان کا فرض"۔۔۔
باپ بے بسی کے عالم میں بیٹے کو دور تک جاتا دیکھتا رہا اور آج اُس نے دل میں ٹھان لی کہ وہ آئندہ ماضی کے بند دریچوں پرکبھی دستک نہیں دے گا۔
Hi everyone.my name is Nida Bloch and this is my blog for everything I like I hope you also find it interesting thanks for visiting my blog. Keep enjoying. Sayo nara
Saturday, 16 December 2017
بی بی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
Tehzeeb ki lashh
Asalam o ealekum , Kuch din pehly hamari gerat kachray k dheer par pari mili thi or ab tehzeeb ki lashh ek car sy baramad hoi hay , Se...
-
ﻧﺼﺮﺕ ﻓﺘﺢ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﺘﻨﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺗﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﺳﮯ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺻﻨﻢ ﻭﮦ ﺧﺪﺍ ﮨﻮ ﮔ...
-
اپنے دُکھ مجھے دے دو (راجندر سنگھ بیدی) اندو نے پہلی بار ایک نظر اوپر دیکھتے ہوئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور صرف اتنا سا کہا۔ "جی...
-
Hamesha Hi Nahi Rehte Kabhi Chehre Naqabon Main Sabhi Kirdaar Khulte Hain Kahani Khatm Hone Par... hi friends Facebook walon ny muj...
No comments:
Post a Comment