احتجاج ........ (افسانہ )
دیپک بُدکی
۱۰۲؍اے ، ایس جی امپرشن ، سیکٹر ۴۔بی ، وسندھرا، غازی آباد ۲۰۱۰۱۲
بینر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی نثار
------------------------
۱۰۲؍اے ، ایس جی امپرشن ، سیکٹر ۴۔بی ، وسندھرا، غازی آباد ۲۰۱۰۱۲
بینر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی نثار
------------------------
اس روز میں کار سے سفر کر رہا تھا۔ چنانچہ ڈرائیور کو اس بات کا احساس تھاکہ مجھے کانفرنس میں دیر ہو رہی ہے وہ بہت تیزی سے گاڑی چلا رہا تھا۔ دن کی شروعات ہی بد شگونی سے ہوئی۔صبح ہی سے گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ ایک طرف بیوی کی فرمائشیں اور دوسری طرف بچوں کی مانگیں ۔ دو چار روز پہلے بیوی نے گھریلو کاموں کی لسٹ تھما دی تھی اور آج ہی حساب مانگنے لگی ۔ بچوں کے فیس کی آخری تاریخ بھی آج ہی مقرر تھی اور پھر وہ مِلونی کا یونیفارم بھی پھٹ چکا تھا ۔ ادھر نوکرانی کا شوہر پیلیا کے باعث اسپتال میں بھرتی ہو چکا تھااور وہ بھی ایڈوانس تنخواہ کا تقاضا کر رہی تھی جیسے یہ ذمے واری بھی میری ہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ گھر میں اخبار پڑھنے کی فرصت بھی نہ ملی۔ میں نے اخبار اپنے ساتھ اٹھالیا تاکہ راستے میں پڑھ لوں۔
ایڈیٹوریل صفحے پر میرے چہیتے جرنلسٹ کا مضمون چھپا تھا۔ مضمون کیا تھا لکھنے والے کی انگلیاں چومنے کو جی چاہ رہا تھا۔ کتنا نڈر اور بے باک جرنلسٹ تھا۔ کتنی سچائی تھی اس کی تحریر میں ! اس نے اکیلے ہی حکومت کی بد عنوانیوں کا پردہ فاش کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ورق ورق حکومت کو چھیلتا چلا جارہا تھا ۔ مجھے اس کی بے خوفی اور بے باکی پر ناز تھا۔
اندر کہیں سے آواز آئی۔ ’’ اگر ایسے ہی دس پندرہ کھوجی صحافی اس دیش میں پیدا ہوئے تو اس دیش کے بھاگ کھل جائیں گے۔ ‘‘
میں اپنے درون کو ٹٹولنے لگا۔
اسی درمیان گاڑی جے جے کالونی کے پاس اچانک زور دار جھٹکے کے ساتھ رُک گئی ۔جھٹکے کی وجہ سے میرا اخبار ہاتھوں سے چھوٹ کر فرش پر بکھر گیا ۔
’’کیوں ....کیا ہوا....؟ رُک کیوں گئے؟‘‘ اخبار سمیٹتے ہوئے میں نے ڈرائیور سے پوچھا۔
’’ سر، گاڑی کے نیچے ایک پلّا آگیا۔‘‘
سامنے سے ایک بپھری ہوئی کالی کتیا دوڑتی ہوئی چلی آئی اور اپنا خونخوار جبڑا کھول کرسفید ایمبیسڈر کار پر بھونکنے لگی۔ہمارے ملک کی افسرشاہی میں سفید ایمبیسڈر کا خوب رواج ہے۔ان ایمبیسڈر کاروں کے سامنے تو بڑے بڑوں کی بولتی بند ہو جاتی ہے۔پھر کتّوں کی کیا مجال۔مجھے یقین تھا کی کتیا خود ہی تھک ہار کر چُپ ہو جائے گی۔
’’شاید پلّے کی ماں ہوگی ؟‘‘میں نے ڈرائیور سے پوچھامگر اس نے سنی ان سنی کردی۔
ڈرائیور نے پھر سے گاڑی کا انجن اسٹارٹ کردیا اور پہلے کی مانند ہی اپنی گاڑی دوڑانے لگا۔ کتیا وہاں اس جگہ پر بھونکتی رہ گئی مگر اس آ ہنی ڈھانچے کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔
کانفرنس ختم ہونے کے بعد جب ہم اسی راستے پر لوٹ رہے تھے تو وہی کتیا نہ جانے کہاں سے پھر اسی جگہ پر آن واحد میں نمودار ہو گئی۔ وہ پاگلوں کی طرح مسلسل بھونک رہی تھی ۔ نتیجتاً ڈرائیور اسٹئیرنگ پر قابو نہ پا سکا اور کتیا گاڑی کے نیچے آکر لہو لہان ہو گئی۔
گاڑی تھوڑی دیر کے بعد قابو میں آگئی اور خود بخود رُک گئی۔
میں گاڑی سے نیچے اُترا۔ اپنے پیچھے نظر دوڑائی۔ وہاں سڑک پر کتیا کی تڑپتی ہوئی لاش تھی، بہتا ہوا اس کا گرم گرم خون تھا اور پھر اس کی پراگندہ انتڑیاں تھیں۔ اس کے منہ میں ابھی بھی ارتعاش تھا اور جبڑے سے خون بہہ رہا تھا۔
کچھ راہ گیر میری طرف ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں ہی مجرم ہوں۔ان کی آنکھیں خشمگیں تھیں۔میں گھبرا کر واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
’’ان لوگوں کو ڈرائیور پر غصہ آنا چاہیے تھا۔ مجھ پر کیوں؟‘‘ میں اپنے آپ سے سوال کر بیٹھا۔
’’ڈرائیور پر کیوں؟ کار تو تمہاری ہے ۔ پھر دیر بھی تو تمہیں ہی ہو رہی تھی۔‘‘ خود ہی جواب ڈھونڈ لیا۔
اس کالی کتیا پر ، جو ایک ماں بھی تھی ، مجھے بہت ترس آیا۔
’’ شاید اس نے ہماری گاڑی کو پہچان لیا ہوگا۔‘‘ میں نے ڈرائیور سے پوچھا۔
’’ ہاں صاحب ایساہی لگتا ہے۔ جانوروں کے بارے میں یہی سنا ہے کہ ان کی یادداشت بڑی تیز ہوتی ہے۔ ان کو ذرا سا زک پہنچاؤ تو پلٹ کر کاٹ لیتے ہیں۔سانپوں کے بارے میں تو میری ماں کہتی تھی کہ مرتے مرتے وہ مارنے والے کی تصویر دل میں اتارتے ہیں اور پھر ان کے بال بچّے اس شبیہ سے انتقام لیتے ہیں۔‘‘
بھیڑ میں سے کسی کی آواز آنے لگی ۔ ’’ نہ جانے کس اندھے نے صبح دم اس کے بچّے کو اپنی موٹر کے نیچے روند ڈالا۔جب سے بے چاری باؤلی ہو چکی تھی اور دن بھر آنے جانے والی گاڑیوں پر بھونکتی رہی۔‘‘
حادثے کے باوجود سڑک پر رات بھر ٹریفک چلتا رہا۔سبھی اپنی اپنی سمت برق رفتاری سے گامزن تھے۔ سڑک پرنعش پڑی پڑی سڑتی رہی ۔ وقتاً فوقتاً گدھ اور کوّے اس میں سے غدود اور مانس نکال کر اڑا لے جاتے۔راہ رو نعش کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے ۔ اپنے منہ کو رومال سے ڈھانک کر دوسری جانب دیکھتے اور تیزتیز قدموں سے آگے نکل جاتے۔
دوسرے روز میونسپل کمیٹی کی کوڑا گاڑی نعش کو اُٹھا کر لے گئی۔
اسی روز اخبار میں بڑی ہی دلچسپ خبر چھپی تھی۔ میرے بطل صحافی نے کابینہ میں وزیر کا حلف اٹھا لیا تھا اور اب اسی نظام کا حصہ بن چکا تھا جس کے خلاف وہ برسوں سے آواز اُٹھا رہا تھا۔
ایڈیٹوریل صفحے پر میرے چہیتے جرنلسٹ کا مضمون چھپا تھا۔ مضمون کیا تھا لکھنے والے کی انگلیاں چومنے کو جی چاہ رہا تھا۔ کتنا نڈر اور بے باک جرنلسٹ تھا۔ کتنی سچائی تھی اس کی تحریر میں ! اس نے اکیلے ہی حکومت کی بد عنوانیوں کا پردہ فاش کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ورق ورق حکومت کو چھیلتا چلا جارہا تھا ۔ مجھے اس کی بے خوفی اور بے باکی پر ناز تھا۔
اندر کہیں سے آواز آئی۔ ’’ اگر ایسے ہی دس پندرہ کھوجی صحافی اس دیش میں پیدا ہوئے تو اس دیش کے بھاگ کھل جائیں گے۔ ‘‘
میں اپنے درون کو ٹٹولنے لگا۔
اسی درمیان گاڑی جے جے کالونی کے پاس اچانک زور دار جھٹکے کے ساتھ رُک گئی ۔جھٹکے کی وجہ سے میرا اخبار ہاتھوں سے چھوٹ کر فرش پر بکھر گیا ۔
’’کیوں ....کیا ہوا....؟ رُک کیوں گئے؟‘‘ اخبار سمیٹتے ہوئے میں نے ڈرائیور سے پوچھا۔
’’ سر، گاڑی کے نیچے ایک پلّا آگیا۔‘‘
سامنے سے ایک بپھری ہوئی کالی کتیا دوڑتی ہوئی چلی آئی اور اپنا خونخوار جبڑا کھول کرسفید ایمبیسڈر کار پر بھونکنے لگی۔ہمارے ملک کی افسرشاہی میں سفید ایمبیسڈر کا خوب رواج ہے۔ان ایمبیسڈر کاروں کے سامنے تو بڑے بڑوں کی بولتی بند ہو جاتی ہے۔پھر کتّوں کی کیا مجال۔مجھے یقین تھا کی کتیا خود ہی تھک ہار کر چُپ ہو جائے گی۔
’’شاید پلّے کی ماں ہوگی ؟‘‘میں نے ڈرائیور سے پوچھامگر اس نے سنی ان سنی کردی۔
ڈرائیور نے پھر سے گاڑی کا انجن اسٹارٹ کردیا اور پہلے کی مانند ہی اپنی گاڑی دوڑانے لگا۔ کتیا وہاں اس جگہ پر بھونکتی رہ گئی مگر اس آ ہنی ڈھانچے کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔
کانفرنس ختم ہونے کے بعد جب ہم اسی راستے پر لوٹ رہے تھے تو وہی کتیا نہ جانے کہاں سے پھر اسی جگہ پر آن واحد میں نمودار ہو گئی۔ وہ پاگلوں کی طرح مسلسل بھونک رہی تھی ۔ نتیجتاً ڈرائیور اسٹئیرنگ پر قابو نہ پا سکا اور کتیا گاڑی کے نیچے آکر لہو لہان ہو گئی۔
گاڑی تھوڑی دیر کے بعد قابو میں آگئی اور خود بخود رُک گئی۔
میں گاڑی سے نیچے اُترا۔ اپنے پیچھے نظر دوڑائی۔ وہاں سڑک پر کتیا کی تڑپتی ہوئی لاش تھی، بہتا ہوا اس کا گرم گرم خون تھا اور پھر اس کی پراگندہ انتڑیاں تھیں۔ اس کے منہ میں ابھی بھی ارتعاش تھا اور جبڑے سے خون بہہ رہا تھا۔
کچھ راہ گیر میری طرف ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں ہی مجرم ہوں۔ان کی آنکھیں خشمگیں تھیں۔میں گھبرا کر واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
’’ان لوگوں کو ڈرائیور پر غصہ آنا چاہیے تھا۔ مجھ پر کیوں؟‘‘ میں اپنے آپ سے سوال کر بیٹھا۔
’’ڈرائیور پر کیوں؟ کار تو تمہاری ہے ۔ پھر دیر بھی تو تمہیں ہی ہو رہی تھی۔‘‘ خود ہی جواب ڈھونڈ لیا۔
اس کالی کتیا پر ، جو ایک ماں بھی تھی ، مجھے بہت ترس آیا۔
’’ شاید اس نے ہماری گاڑی کو پہچان لیا ہوگا۔‘‘ میں نے ڈرائیور سے پوچھا۔
’’ ہاں صاحب ایساہی لگتا ہے۔ جانوروں کے بارے میں یہی سنا ہے کہ ان کی یادداشت بڑی تیز ہوتی ہے۔ ان کو ذرا سا زک پہنچاؤ تو پلٹ کر کاٹ لیتے ہیں۔سانپوں کے بارے میں تو میری ماں کہتی تھی کہ مرتے مرتے وہ مارنے والے کی تصویر دل میں اتارتے ہیں اور پھر ان کے بال بچّے اس شبیہ سے انتقام لیتے ہیں۔‘‘
بھیڑ میں سے کسی کی آواز آنے لگی ۔ ’’ نہ جانے کس اندھے نے صبح دم اس کے بچّے کو اپنی موٹر کے نیچے روند ڈالا۔جب سے بے چاری باؤلی ہو چکی تھی اور دن بھر آنے جانے والی گاڑیوں پر بھونکتی رہی۔‘‘
حادثے کے باوجود سڑک پر رات بھر ٹریفک چلتا رہا۔سبھی اپنی اپنی سمت برق رفتاری سے گامزن تھے۔ سڑک پرنعش پڑی پڑی سڑتی رہی ۔ وقتاً فوقتاً گدھ اور کوّے اس میں سے غدود اور مانس نکال کر اڑا لے جاتے۔راہ رو نعش کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے ۔ اپنے منہ کو رومال سے ڈھانک کر دوسری جانب دیکھتے اور تیزتیز قدموں سے آگے نکل جاتے۔
دوسرے روز میونسپل کمیٹی کی کوڑا گاڑی نعش کو اُٹھا کر لے گئی۔
اسی روز اخبار میں بڑی ہی دلچسپ خبر چھپی تھی۔ میرے بطل صحافی نے کابینہ میں وزیر کا حلف اٹھا لیا تھا اور اب اسی نظام کا حصہ بن چکا تھا جس کے خلاف وہ برسوں سے آواز اُٹھا رہا تھا۔
********************************************************
No comments:
Post a Comment