Friday, 15 December 2017

سوزدروں کرنل خاقان ساجد

سوزدروں
کرنل خاقان ساجد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسے پروموشن کی توقع تو تھی مگریقین سے کچھ کہنامشکل تھا۔کمپی ٹیشن ہی بہت تھا۔آخری وقت تک امیدوبیم کی سولی پرلٹکارہا۔دفترسے اس نے دوروزکی رخصت لے لی تھی۔اچھی یا بری خبروہ اپنے گھرپرہی سننا چاہتاتھا۔
دوپہردوبجے کے قریب ایک سینیئر نے فون پر خوش خبری سنائی توسرشاری وشادمانی کی ایک لہرایکاایکی سارے وجود میں دوڑ گئی۔ احساس تفاخر سے سینہ تن گیا۔ قدآدم آئینے میں اپنا سراپادیکھتے ہوئے مسکراکرکہا:
" Old chap ! you really deserved it ! "
اپنی سرکاری کوٹھی میںوہ اس وقت اکیلا تھا۔دونوں بیٹے اور بیوی سکول گئے ہوئے تھے۔وہ بیکن ہائوس میں پڑھاتی تھی ۔بے چینی سے ان کا انتظار کرنے لگا‘تاکہ خوشی کی یہ خبرشیئرکرسکے۔مگرتھوڑی ہی دیربعد ایک بے نام سی اداسی اس کے قلب و ذہن پرچھانے لگی۔بالکل ایسے جیسے سورج ڈوبتے ہی تاریکی آسمان کے زینے سے دھیرے دھیرے نیچے اترتی اورزمین کی ہرشے کواپنے حصارمیں لے لیتی ہے۔ماضی کی ایک تلخ یادنے اسے آزردہ کردیاتھا۔
ابھی وہ افسردگی کی لپیٹ میںآیا ہی تھاکہ سیاہ رنگ کی اسٹاف کارکوٹھی کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی ۔بیوی بچوں کی جھلک دیکھتے ہی ساری اداسی کافور ہوگئی ۔اس نے انہیں پورچ ہی میں جا لیا اورخوشی خبری سنا ڈالی ۔لڑکوں نے جب سناکہ بابا جنرل بن گئے ہیں‘ تودونوں نے یاہو کا نعرہ بلندکیا۔بیوی بے پایاں مسرت سے رونے لگی۔جب بھی اسے کوئی خوشی ملتی ‘وہ اس کا اظہار روکر کرتی تھی۔
وہ اندرداخل ہوئے تو فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ دوست احباب کی جانب سے مبارک باد کی کالوں کا سلسلہ شروع ہوگیاتھا۔وہ ایک کال اٹینڈ کرکے فارغ ہوتاتو دوسری آ جاتی۔بیوی سارے گھرمیں دوڑی پھررہی تھی۔نوکروں کو ہدایات دے رہی تھی کہ جلدی باہر لان میں بہت سی کرسیاں لگوائیں۔شام پڑتے ہی افسران اپنی بیگموں سمیت مبارک دینے پہنچنے لگیں گے۔چائے کے انتظام کے لئے اس نے میس سیکریٹری کوفون کروادیاتھااور مٹھائی کاٹوکرا لانے کے لئے ڈرائیورکو’’فریسکو سویٹس ـ‘‘ روانہ کردیاتھا۔
مبارک باد دینے والوں کی آمدکا سلسلہ عصر کی نماز سے شروع ہوا اور عشاء تک جاری رہا۔اس دوران پھر یاسیت کی کیفیت عودکرآئی ۔ وہ بظاہرہونٹوں پرمسکراہٹ سجائے ہرایک سے مل رہاتھا‘مگراندر سے دکھی تھا۔وہ حسرت و یاس کی جس حالت سے گزررہاتھا‘اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتاتھا۔ اس کی بیوی بھی نہیں۔
رات گئے جب آخری مہمان کو رخصت کرکے وہ اپنی خواب گاہ میں آیاتو خاصا تھکاہواتھا۔مگراس کی جواں سال بیوی اب بھی فریش دکھائی دیتی تھی۔ خواب گاہ میں خاوندکی آمد سے پہلے ہی اس نے شب خوابی کا مہین لباس پہن لیاتھا اور بسترپرنیم درازتھی۔ ٹیبل لیمپ کی ہلکی اور ٹھنڈی روشنی میں کمرے کا ماحول بہت رومان پرورلگ رہاتھا۔ وہ جب سلیپنگ سوٹ پہن کربسترپرلیٹا تو وہ اس کے قریب کھسک آئی ۔یوڈی کلون کی لطیف سی خوشبواس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔بیوی کی شوخ آنکھوں میں چھپاپیغام اس نے پڑھ لیاتھا‘مگر تھکاوٹ کا عذرکرکے کروٹ بدل لی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
مگرنیندآنکھوں سے روٹھی ہوئی تھی۔
بائیس سال پہلے جب وہ رشتہ ء ازدواج میں منسلک ہوئے تو وہ پچیس چھبیس برس کا دبلا پتلا اورسانولا سا کپتان تھاجبکہ زارا بائیس تئیس سال کی اپنے حسن پرنازاں ایک خودپسند لڑکی ۔یہ ایک ارینجڈ میرج تھی مگراس کا محرک زارا سے اس کی مجنونانہ محبت تھی۔
نیلی آنکھوں اورسنہرے بالوں والی اس گوری چٹی ‘ پرکشش لڑکی کوجب اس نے پہلی بار دیکھا تو آنکھیں جھپکنا بھول گیا۔
’’الہیٰ!اگرتوایسی من موہنی صورتیں بنانے پر قادرہے تو تو خودکس قدرحسین ہوگا!‘‘
بے ساختہ یہ کلمات اس کے لبوں سے پھسل پڑے تھے۔
وہ دوسہیلیوں کے ساتھ صنعتی نمائش دیکھنے آئی تھی اورسبھی مردوں‘بالخصوص نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی ۔ دیگرنوجوانوں کی طرح وہ بھی تھوڑافاصلہ رکھ کر مسمرائزڈ معمول کی طرح اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔جب شوفرڈرائیون مرسڈیز میں بیٹھ کر وہ اپنے گھر روانہ ہوئی تو اس کی سوزوکی بھی تعاقب میں تھی۔تھوڑی ہی دیرمیں اس نے پتا چلالیاکہ گاڑی جس بنگلے میں داخل ہوئی ہے ‘ وہ وزارت دفاع کے جوائنٹ سیکریٹری کاگھرہے ۔تیسرے چوتھے روزوالدہ کے ہاتھ رشتے کا پیغام بھیج دیا۔ جواب ملا کہ ابھی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔جلدشادی کا ارادہ نہیں ہے۔
’’ناصرف لڑکی بلکہ اس کی ماں بھی خودپسندی اوردوسروں کو کمترسمجھنے کی بیماری میں مبتلاہے ۔‘‘ماں نے متنبہ کیا۔’’نعمان بیٹا!حسن پرنہ جائو‘یہ لڑکی تمہارے لائق نہیں ہے ۔‘‘
مگراس کے سرپر توعشق کا بھوت سوارتھا۔فیصلہ سنادیا کی شادی کرے گاتو صرف زارا سے ۔ورنہ ساری عمر کنوارا رہے گا۔والدہ نے اس کی ضددیکھی تووعدہ کیا کہ وہ ہفتے عشرے کے بعدایک کوشش اور کریںگی ۔ مگراسے بہت جلدی تھی۔خود میدان عمل میں کودنے کی ٹھان لی۔پہلے پہل تو اس نے کپتان کوکوئی لفٹ نہیں کرائی۔ مگرجب صبح وشام اسے یونیورسٹی اور گھرکے گرد منڈلاتے دیکھا توایک دن پوچھ لیا۔
’’کیاچاہتے ہو؟‘‘
’’فقط آپ کی نگاہ کرم!‘‘
’’میں فلرٹ کرنے والے لڑکوں کو پسندنہیں کرتی۔‘‘
’’فلرٹ کون کررہاہے۔میں انتہائی سنجیدہ ہوں۔والدہ کے ہاتھ رشتے کا پیغام بھیجا تھا۔شایدآپ کو یادنہیں۔‘‘
’’انہیں جو جواب دیا گیاتھا وہ شایدآ پ کو یادنہیں۔‘‘
’’یادہے اورمنہ زبانی یادہے ۔مگرقبول نہیں۔بندہ شادی آپ ہی سے کرے گا‘ورنہ کنوارہ مرجائے گا!‘‘
’’پرانا ڈائیلاگ ہے۔صبیحہ اورسنتوش کی کسی فلم کا۔۔‘‘
’’محترمہ۔آپ میری محبت کا مذاق نہ اڑائیں‘بے شک آزمالیں۔میں کڑی سے کڑی آزمائش پر پورا اتروں گا۔‘‘
’’چلوٹھیک ہے۔آج پوری رات میری کوٹھی کے گیٹ کے سامنے بیٹھ کر گذار دوتو مجھے یقین آجائے گا کہ تم واقعی مجھ سے سچی محبت کرتے ہو۔‘‘
دسمبر کی طویل رات اور اسلام آباد کی کڑاکے دار سردی۔مگرگرمیء عشق نے اسے سرخرو کیا۔اونی شلوار قمیص اور فوجی جیکٹ زیب تن کر کے سرپرپٹی کی ٹوپی پہنی اورگردن کے گردگرم مفلرلپیٹ لیا۔ہاتھ میں ڈنڈا اور ٹارچ پکڑکرچوکیدار کا روپ دھارا اورگاہے گلی کا چکرکاٹ کر اور گاہے سڑک کنارے آگ تاپتے ہوئے رات گزاردی ۔زارا نے کھڑکی کا پردہ سرکا کرجب بھی دیکھا‘اسے کوٹھی کے سامنے موجود پایا۔اگلے روز اس نے دادطلبی کے لئے فون کیا تو ہنستے ہوئے بولی۔
’’میں بھول گئی تھی کہ فوجی افسر کے لئے یہ سرے سے کوئی آزمائش ہی نہیں۔کاکول اکیڈمی میںتم لوگوں کوکھلے آسمان تلے رات بھرجاگنے اور ریگنگ کرنے کا خوب تجربہ ہوجاتاہے۔‘‘
’’توپھر؟‘‘
’’پھر یہ کہ تمہارے لئے یہ روٹین میٹر تھا‘اس لئے کچھ اور کرکے دکھائو۔‘‘
اس نے اگلے روز خون سے لکھ اہوا لو لیٹر بھیجاتو کہنے لگی:
’’مجھے کیا پتا۔یہ تمہاراخون ہے یا کوئی معصوم کبوترتمہاری چالاکی کی بھینٹ چڑھ گیاہے۔۔‘‘
’’اچھا! جلدہی تمہیں معلوم ہوجائے گا۔‘‘ اس نے شکستہ دل کے ساتھ کہا اور فون بند کردیا۔
اسی شب اس نے بلیڈ سے اپنی کلائی کی نس کاٹ کر نیچے سادہ کاغذرکھ دیا۔سیاہی مائل سرخ گاڑھاخون ساری رات قطرہ قطرہ اس کاغذ پر ٹپکتا رہا۔ صبح سویرے خون میں تر کاغذلفافے میں بندکرکے اسے پوسٹ کردیا۔تھوڑی دیر گزری تھی کہ نقاہت سے دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ایک کزن بروقت سی ایم ایچ نہ پہنچاتا توشایدآج لوگ اسے شہیدمحبت کے لقب سے یاد کررہے ہوتے۔
ماں اپنے لخت جگر کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اٹھی۔زاراکے گھر جاکرفریادی لب ولہجے میںکہا’’ کیاآپ میرے بچے کی جان لے کرراضی ہوںگے۔آخر چاہتے کیاہیں؟بیٹی کہیں تو بیاہنی ہے ۔ ہم آسودہ حال ‘ شریف اورخاندانی لوگ ہیں ۔بیٹا ماشاء اللہ کپتان ہے‘ آگے بھی اس کی ترقی کے چانس ہیں۔بیشک پتہ کروالیں۔سب سے اہم بات یہ کہ آپ کی لڑکی کو دل وجان سے چاہتاہے۔ اسے بہت خوش رکھے گا۔‘‘
اس باران کا رویہ قدرے حوصلہ افزاتھا۔کہنے لگے ’’ہمیں سوچنے کے لئے تھوڑاوقت چاہئے۔‘‘
چوتھے پانچویں دن زاراکے والد نے اس سے ملاقات کی‘ جس کے بعد رشتہ منظورہوگیا۔
شادی کے بعد وہ اسے ہنی مون پر یورپ لے گیا۔ یہ تیس روز اس کی زندگی کے سب سے خوبصورت اور ناقابل فراموش دن تھے۔وہ لندن ‘پیرس‘روم‘میلان ‘وینس اورفلورنس میںسیاحوں کے لئے پرکشش ‘ہرمشہور مقام پرگئے۔بکھنگم پیلس ‘مومی مجسموں کا عجائب گھر‘پکاڈلی سرکس ‘ آئفل ٹاور‘شانزے لیزے ‘ ویٹی کن کے قدیم گرجا گھر‘ فلورنس کے میوزیم ‘وینس کی نہریں‘پیساکا ٹیڑھا مینار‘ جھیل نیپلز‘پمپئی کے کھنڈرات اورسمندرکے کنارے کیپری پہاڑ پر آباد کیپری کارومان پرور شہر ۔زارا کی معیت میں گزرا ہوا ایک ایک لمحہ اس کی زندگی کا قیمتی سرمایہ تھا۔ایک ایسا خزانہ جسے آج بھی اس نے اپنے دل کے نہاں خانے میں چھپارکھاتھا۔وہ جہاں جاتے زارا نوبیاہتاجوڑوں کے Rituals کی ادائیگی ہرگزنہ بھولتی۔روم کے فواروں میں اس نے دلہنوں کواپنے اور شوہرکے ناموں کے سکے پھینکتے دیکھاتوخودبھی ایساکرنے کو مچل اٹھی۔پیرس کا پیگال چرچ دیکھنے گئی تو اپنے اور اس کے نام کی موم بتی جلائے بغیرباہرنہیں نکلی۔ہرنئی جگہ وہ کسی نہ کسی دیوار‘پہاڑی پتھر یادرخت کے تنے پرزارا+ نعمان ‘ضرور لکھتی تھی۔ نیچے کوئی نہ کوئی خوبصوت جملہ یا ریمارکس درج ہوتا۔ وہ کشتیوں اور گنڈولوں میں دریاکی سیر کرتے ہوئے ان کے چوبی تختوں ‘ راستے میں آنے والے پلوں کے ستونوں اور ساحلوں کی گیلی ریت پربھی اپنا اوراس کا نام رقم کیا کرتی ۔کیپری پہاڑ پر کھڑے ہوکراس نے دور تک پھیل ہوئے خوبصورت شہر پر نگاہ ڈالی اور ایک بڑی چٹان پرZara loves Nauman لکھ کرنیچے تاریخ ڈال دی ۔کہنے لگی:
’’میں یہاںاپنی محبت کی گواہی رقم کررہی ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ کبھی قسمت دوبارہ ہمیں اس خوبصورت شہر اورپہاڑپر لائی تواس چٹان پرمیری تحریر کا کوئی نہ کوئی نقش ضرورباقی ہوگا۔‘‘
مگریہ موقع کبھی نہیں آیا۔جب وقت اورحالات نے کروٹ لی تو دیواروں‘ پتھروں‘درختوں ‘ کشتیوں اورگنڈولوں ‘پلوں کے ستونوں اورساحلوں کی ریت پرلکھی ہوئی کوئی تحریر اور کیپری پہاڑ کی چٹان پر لکھی ہوئی محبت کی کوئی گواہی انہیں ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچا نہیںسکی۔۔
وہ ہنی مون کی چھٹیاں گزار کرواپس پہنچا تو معلوم ہواکہ اس کی یونٹ سیاچن جارہی ہے۔
اس نے سنا تو رودی۔
’’میں تمہیں وہاں نہیں جانے دوں گی۔کئی سرونگ جنرل پاپا کے دوست ہیں۔ان سے کہہ کر تمہاری پوسٹنگ راولپنڈی کی کسی یونٹ میں کروادوںگی۔‘‘
’’کیسی بچوں جیسی باتیں کررہی ہو۔میںآزمائش کی گھڑی میں اپنی یونٹ کو چھوڑکرتمہارے پہلوسے لگ کربیٹھ جائوں؟ ایسی شرمناک حرکت کرنے کا میںسوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
’’اگروہاں تمہیں کچھ ہوگیاتو؟‘‘
’’اگرسب افسروں کی بیویاں تمہاری طرح سوچنے لگیں توہم لڑچکے جنگیں!‘‘
’’انسانوں سے جنگ لڑی جاسکتی ہے‘ موسم سے نہیں۔جانتے ہو وہاںکیا ہوتاہے؟ دشمن سے لڑتے ہوئے جانیں نہیں جاتیں‘شدیدسردی سپاہیوں کومارڈالتی ہے ۔بعض تو عمر بھرکے لئے معذور ہوجاتے ہیں۔فراسٹ بائٹ کی وجہ سے۔۔‘‘
’’ مسلمان ہونے کی حیثیت سے میرا ایمان ہے کہ میری تقدیرمیں اگر کوئی مصیبت لکھی ہوئی ہے تومیں اس سے بچ نہیںسکتا‘خواہ کسی محفوظ قلعے میں خودکو قید کرلوں۔ تدبیرسے انسان کی تقدیرنہیں بدل سکتی۔البتہ دعا سے ضروراس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کروائی جاسکتی ہے۔تم میرے لئے دعاکرتی رہنا۔ انشاء اللہ مجھے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
وہ دیر تک اسے سمجھاتا رہا۔ آخراس نے آنسو پونچھ ڈالے اورمسکراتے ہوئے کہنے لگی۔
’’معلوم ہے تم سے پہلی بار ملنے کے بعدتمہارے بارے میں پاپاکے کیا تاثرات تھے ؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کہنے لگے۔ نعمان بہت ٹیلنٹڈلڑکاہے،کاکول سے سورڈآف آنر(Sword of Honour) لے چکاہے۔اب تک کے سارے کورسوں میںٹاپ پوزیشن لی ہے۔ساری اے سی آرز(ACRs)آئوٹ اسٹینڈنگ ہیں۔بہت آگے جائے گا۔ دیکھنا ایک روز یہ جنرل بنے گا۔۔‘‘
’’لپیٹوبھئی‘لپیٹو!‘‘ وہ ہنسا۔
’’سچ مچ!انہوں نے بڑے وثوق سے کہاتھا۔آخراتنا تجربہ ہے ان کا۔ کئی جنرل ان کے قریبی دوست ہیں۔ان کی اسی بات کو سن کر تو میں نے شادی کے لئے ہاں کی تھی‘ورنہ میں نہیں تھی کسی للو پنجو سے کپتان کو گھاس ڈالنے والی۔۔‘‘
وہ اس کی بات سن کرتادیرہنستا رہا۔پھربولا:
’’میں تو سمجھاتھا‘میری قربانیاں رنگ لائیں۔ خون سے بھرا ہوامیراخط دیکھ کرتم مجھ سے شادی پر آمادہ ہوئی تھیں۔۔‘‘
’’میں کبھی کسی کی اموشنل بلیک میلنگemotional black mailing میں نہیں آتی ۔۔۔‘‘
اسی اثناء میں اچانک ایک دوست ملنے آگیا اور بات ادھوری رہ گئی۔
سیاچن گلیشیئر۔۔ دنیاکاسب سے بلندمحاذجنگ‘ایک سردجہنم کے سواکچھ نہیںتھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھاکہ ہٹ دھرم دشمن اپنی سپاہ کو شدید سردموسم میں وہاں بٹھاکرآخرحاصل کیا کررہاہے؟یہ موسم سے جنگ تھی‘مدمقابل سے نہیں۔اسے بتایا گیاتھاکہ تقسیم ہندکے وقت سے یہ بے آباد برفانی علاقہ مسلمہ طورپرپاکستان کے کنٹرول میںر ہاہے ۔دنیابھرکے سیاح اور کوہ پیما اس علاقے میں آنے کے لئے سفری دستاویزات اور اجازت نامے پاکستان ہی سے حاصل کرتے رہے ہیں۔پھرخداجانے تین دہائیوں کے بعددشمن کواچانک یہ خیال کیسے آیاتھاکہ یہ علاقہ اس کی ملکیت ہے؟بہرکیف پاک فوج کی جوابی کاروائی نے دشمن کی مزید پیش قدمی روک دی تھی۔اپنے دفاع کومضبوط بنانا اور موقع پاتے ہی کھوئی ہوئی چوکیوں کودشمن سے واپس چھیننا‘اس کی یونٹ کا مشن تھا۔
آخر ایک روزپلٹن کو وہ موقع میسرآہی گیا۔منصوبہ پہلے سے تیار تھا۔اس مشن کی تکمیل کے لئے وہ اپنا نام شروع دن سے والنٹیئرز کی لسٹ میں لکھواچکاتھا۔جونہی دیوالی کے روزدشمن کی چوکی پرنفری کم ہونے کی اطلاع موصول ہوئی‘اس سمیت پانچ فوجیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے رسے سے لٹکا کرباری باری اس چوٹی پرکامیابی سے اتار دیاگیا۔دشمن کے ڈیوٹی پرموجودسپاہیوںنے شدیدمزاحمت کی۔رائفلوں اور مشین گنوں سے ایک دوسرے پرگولیوں کی بوچھاڑ کے بعد سنگینوں سے لڑائی ہوئی ۔ جب ہیلی کاپٹرچھٹے اورآخری جوان کو اتاررہاتھااس وقت اس پرایک راکٹ داغاگیااوروہ فضاہی میں تباہ ہوگیا۔رسی سے لٹکا ہواجوان کئی سوفٹ گہری کھائی میں جاگرا۔اس سوئی سائیڈ مشن کی کامیابی کے امکانات دس فی صد سے بھی کم تھے مگراللہ نے ان کے نصیب میں فتح لکھ دی تھی۔اس روز اس چوٹی پر صرف دو آدمی زندہ بچے ۔ وہ خود اور اس کا وائرلیس آپریٹر‘سپاہی پائندہ خان۔دشمن کا ایک لفٹین اور دس سپاہی مارے گئے تھے۔پائلٹ سمیت اس کے اپنے پانچ ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیاتھا۔وہ خود بری طرح زخمی تھا۔اس کی دائیں ٹانگ پر مشین گن کی بوچھاڑ پڑی تھی۔خون تیزی سے بہہ رہاتھا۔ سپاہی پائندہ خان نے اس کی ٹانگ پر شیل ڈریسنگ باندھ کرخون کو روکنے کی اپنی سی کوشش کی مگر بے سود۔بٹالین کمانڈر کو وائرلیس پر مشن کی کامیاب تکمیل کی اطلاع دیتے ہوئے وہ صرف اتنا کہہ پایا۔
"Sir, we have achieved it !"
اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہیں رہا۔
جب اس کے حواس بحال ہوئے تواس نے خود کوسی ایم ایچ راولپنڈی کے آفیسر وارڈ میںپایا۔ اس کی فراسٹ بائٹ سے متاثرۃ زخمی ٹانگ گھٹنے سے ذرا نیچے کاٹ دی گئی تھی۔دائمی معذوری کے خیال نے اسے وقتی طور پر غم زدہ ضرور کیا‘مگر یہ خبر اس کے لئے باعث طمانیت تھی کہ چوٹی اب پاک فوج کے مستحکم قبضے میںہے ۔ مفتوحہ چوکی کا نام اس کے نام کی نسبت سے ’’ نعمان پوسٹ‘‘ رکھ دیاگیا تھا۔بریگیڈ ہیڈکوارٹر نے ہائی کمان سے اسے بہادری کا اعلیٰ فوجی اعزاز عطاکرنے کی سفارش بھی کی تھی۔
اسے دیکھنے‘ اس کی بیمار پرسی اور تیمارداری کے لئے گھر والے‘ عزیز واقارب ‘ دوست ‘ کولیگ‘ جونئیروسینئرافسراورجوان بڑی تعدادمیں آئے ۔اس کے بیڈ کے سرہانے پھولوں کے ان گنت بوکے‘ دعائیہ کارڈ‘ پھلوں کی ٹوکریاں اورتحفے پڑے ہوئے تھے۔مگروہ جس کا منتظر تھا وہ نہیں آئی ۔اس کی شریک زندگی‘ اس کی زارا ‘اسے ایک بار بھی دیکھنے نہیں آئی تھی۔اس کی ساس اورسسرصاحب ضرور آئے مگر تھوڑی دیر رک کر اور اسے دلاسا دے کر چلے گئے ۔اسے بتایا گیا کہ زارا کی طبیعت بہت خراب ہے اور وہ سخت شاک میں ہے۔اسی سبب وہ اسے ساتھ نہیں لائے۔مگرآہستہ آہستہ اصل حقیقت اس پر کھلنے لگی۔وہ اسے فون کرتا تواٹینڈنہ کرتی‘گھروالے بہانہ کردیتے کہ دواکھاکر سوئی ہوئی ہے۔ اس کے عجیب و غریب رویے نے اسے اندر سے توڑکررکھ دیا۔ براہ راست تو نہیں‘مگرادھر ادھر سے اس کے والدین کو باور کرادیاگیا کہ یہ شادی مزید نہیںچل سکے گی۔اس کے والدین ان لوگوںکی منت سماجت کرنے ان کے گھرپہنچ گئے ‘مگرآگے سے معذرت خوانہ سا جواب ملا کہ اگر ان کی اکلوتی بیٹی ایک معذور شخص کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تو وہ اسے مجبور نہیں کرسکتے۔ مہینہ بھر بعد جب وہ ابھی پوری طرح صحت یاب بھی نہ ہوا تھا‘ اسے زاراکی طرف سے خلع کا نوٹس موصول ہوگیا۔
علیحدگی سے پہلے ‘اس کی خواہش پر اس نے بمشکل ایک مرتبہ اس سے ملنے کی حامی بھری اور وہ بھی بس کھڑے کھڑے۔چٹان جیسا مضبوط کپتان اسے دیکھ کرسسک پڑا۔
’’ میری غلطی تو بتائو زارا۔۔آخرمیراقصورکیاہے ؟کہاں گئے تمہارے محبت کے دعوے‘ تمہاری الفت کی وہ سب گواہیاں جو تم ہنی مون کے دوران پتھروں‘درختوں اور ساحلوں کی ریت پر لکھتی رہیں؟ ‘‘
’’آئی ایم سوری نعمان!تم خواہ مخواہ جذباتی ہورہے ہو۔میں ایک حقیقت پسند لڑکی ہوں۔جذبات سے زیادہ عقل کو اہمیت دیتی ہوں۔خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلو۔
I had married a future general , not a disabled captain!
یہ کہہ کر وہ تیزی سے پلٹی اوراپنے باپ کی مرسڈیز میں جا بیٹھی۔ وہ اس کی جاتی ہوئی گاڑی کو دور تک دیکھتارہا۔
مہینوں وہ صدمے کی کیفیت سے دوچار رہا‘ پھررفتہ رفتہ خودکو سنبھال لیا۔
زاراسے بندھن ٹوٹنے کے بعداس نے ہمیشہ کے لئے شادی کا خیال دل سے نکال دیا۔اس کی یونٹ اب ملک کی ایک دوردرازچھائونی میں تھی۔وہ میس میں تنہا رہتا اورپیشہ ورانہ فرائض سے جو وقت بچتا ‘ اسے گالف کھیلنے یا کتب بینی میں صرف کردیتا ۔فوج کے ماہرڈاکٹروں نے امپورٹڈ مصنوعی ٹانگ لگا کراسے چلنے پھرنے‘حتیٰ کہ بھاگنے دوڑنے کے قابل بنادیاتھا ۔سرسری نظر سے دیکھنے والا بالکل نہیں جان پاتا تھاکہ اس کی ایک ٹانگ مصنوعی ہے۔
اپنی وردی پرجرنیلی کے بیج سجانے کے لئے اس نے برسوں جان توڑمحنت کی تھی۔ یہ آرزو کہ وہ جرنیل بن کر رہے گا‘ اس کی زندگی کا سب سے بڑا مقصدبن گیاتھا۔ایک سوزدروں تھاجواسے مسلسل کچوکے لگاتارہتا۔جرنیلی یوں ہی تو نہیں مل جاتی۔بالخصوص ایسے افسرکوجو ایک ٹانگ سے معذوربھی ہو۔مگر وہ اپنی دھن کا پکاتھا۔ معذوری کواس نے کبھی اپنی کمزوری نہیں بننے دیا۔برسہا برس تک اس نے جنگلوں‘ میدانوں‘ صحرائوں‘ سنگلاخ پہاڑوں اور برف پوش وادیوں میں اپنی پلٹن کے شانہ بشانہ ہرطرح کی عسکری خدمات سرانجام دیں۔وہ اپنی مصنوعی ٹانگ کے ساتھ بہت سے صحت مندافسروں اور جوانوں سے زیادہ تیزبھاگتاتھا۔اسالٹ کورس‘فیلڈ فائرنگ‘روٹ مارچ‘کراس کنٹری ریس‘غرضیکہ ہرایونٹ میں شمولیت اس نے خودپر لازم ٹھہرالی تھی۔سینئرافسران اس کی پیشہ ورانہ قابلیت ‘ ذہانت ‘محنت ولگن اورجوش وجذبے کے معترف تھے۔جونیئرافسر اور جوان بھی اسے بہت پسندکرتے تھے ۔یہی سبب تھاکہ رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہوا وہ آج میجرجرنل کے عہدے تک آپہنچاتھا۔
بارہ برسوں پر محیط تنہائی کی زندگی گزارنے کے بعد نکاح ثانی کا فیصلہ اسے باامرمجبوری کرنا پڑا۔بسترمرگ پر پڑی ضعیف والدہ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تو انکارکا یارا نہ رہا۔ ماں کی پسند‘عمرمیں اس سے پندر ہ سال چھوٹی بیوی بہت سمجھ دار اور اچھی شریک زندگی ثابت ہوئی ۔وہ ناصرف اس سے پیار کرتی تھی بلکہ اس کا احترام بھی کرتی تھی۔وہ بھی اس کی محبت کا جواب محبت سے دینے کی کوشش کرتاتھا۔
رات کے پچھلے پہرنیم خوابیدہ بیوی نے شوہر کے منہ سے بڑبڑاہٹ سنی تو اس کی آنکھ کھل گئی۔
’’زارا ۔دیکھومیں ۔۔میںجنرل بن گیاہوں۔پلیزمجھے چھوڑ کے مت جائو۔پلیزڈونٹ لیومی !‘‘
وہ کہنی کے بل اوپراٹھی اوراپنے شوہرکی طرف دیکھا۔ آنسوئوں کی پتلی دھاراس کی آنکھ کے گوشے سے نکل کررخسارپر بہہ رہی تھی اور وہ گہری نیندسویا ہواتھا۔

No comments:

Post a Comment

Tehzeeb ki lashh

Asalam o ealekum , Kuch din pehly hamari gerat kachray k dheer par pari mili thi or ab tehzeeb ki lashh ek car sy baramad hoi hay , Se...